کابل: افغانستان کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا منصوبہ مؤخر کردیا ہے۔
واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ حکام ‘جذبہ خیر سگالی کے تحت’ بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے قبل ایک ہزار 500 طالبان قیدیوں کو رہا کریں گے۔
طالبان نے پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے امریکا-طالبان معاہدے میں طے کیے گئے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے روز افغانستان کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کا کہنا تھا کہ ‘قیدیوں کی رہائی کو موخر کردیا گیا ہے تاکہ ان کی شناخت پر نظر ثانی کے لیے وقت مل سکے، ہمیں قیدیوں کی فہرست ملی ہے جنہیں رہا کیا جانا ہے اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں اور فہرست کی تصدیق کر رہے ہیں، اس میں کچھ وقت لگے گا’۔
تحریر جاری ہے
مزید پڑھیں: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے فرمان پر دستخط کر دیے
انہوں نے کہا کہ حکومت ایک ہزار 500 قیدیوں کو رہا کرنے کے عمل آغاز کردے گی اگر طالبان نے تشدد کو کم کیا جس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے آغاز کے بعد دیگر 3 ہزار 500 قیدیوں کو رہا کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ضمانت چاہیے کہ وہ دوبارہ لڑنے نہیں آئیں گے’۔
امریکا-طالبان معاہدے پر دوحہ میں 29 فروری کو دستخط کے بعد ست تشدد میں اضافہ ہوا ہے جہاں طالبان نے ملک بھر میں درجنوں حملے کیے ہیں جس میں افغان فورسز اور شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اس تاخیر سے امن مذاکرات بھی رک جائیں گے جن کا آغاز 10 مارچ سے ہونا تھا تاہم معاملے پر طالبان کی جانب سے فوری رد عمل سامنے نہیں آیا۔
بدھ کے روز حکومت نے خبردار کیا تھا کہ اگر تشدد جاری رہا تو وہ بھی اپنے آپریشنز کا آغاز کردیں گے۔
کابل میں سیاسی انتشار نے بھی معاملے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے جہاں افغان صدر اشرف غنی کے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے صدارت کا دعویٰ کردیا ہے۔
پیر کے روز عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے بعد خود صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔
دوحہ معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج کا 14 ماہ میں انخلا ہونا ہے جس کے بدلے میں طالبان کی جانب سے سیکیورٹی ضمانتیں اور کابل کے ساتھ مذاکرات کا وعدہ کیا گیا ہے۔
امریکا نے کہا تھا کہ فوج کا انخلا دونوں فریقین کے درمیان کامیاب مذاکرات سے مشروط نہیں تاہم امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بیان جاری کیا تھا جس میں کابل کے سیاست دانوں کو حل تلاش کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ فہرست میں موجود کئی طالبان قیدیوں نے اپنی سزائیں پوری کرلی ہیں اور ان کے ناموں کا فیصلہ طویل عرصے تک کیے گئے مذاکرات کے بعد طے کیا گیا تھا۔