تحریر: حجۃ الاسلام سید حسنین عباس گردیزی
دُعا اور اس کی اہمیت
دعا کے لغوی معنی بلانے اور پکارنے کے ہیں اور اصطلاح میں دعا کا مطلب اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں طلب کرنا اور اس کی طرف توجہ کرنا ہے ۔دعا انسان کی فطری ضرورت ہے انسان جب اپنے اند ر غور کرتا ہے وہ اپنے آپ کو محتاج اور نیاز مند پاتا ہے ۔اب یہ کس سے اپنی حاجتوں اور ضروریات کو پورا کرنے کا سوال کرے اللہ تعالیٰ کے سوا سب محتاج ہیں۔لہذا اب انسان کو اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کرنا چاہیے او راُسی سے ہی اپنی حاجتیں طلب کرنی چاہیں ۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
’’یٰٓااَیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ‘‘(۱)
اے انسان تم سب اللہ کے محتاج اور فقیر ہو اور اللہ بے نیاز اور قابل حمد وثنا ہے ۔
ایک اور جگہ پر ارشاد ہو اہے
’’وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمْ الفُقَرَآ ئُ‘‘(۲)
اللہ بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو ۔
انسان جتنا اپنے اند ر اللہ تعالی کی نسبت محتاجی کا احساس کرے گا تو وہ دعا کے ذریعے اتنا زیادہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔ضرورت اور اضطرار کے وقت انسان اللہ کی پناہ مانگتا ہے اور انسان کا اللہ تعالی سے یہ رابطہ طبیعی اور فطری ہے۔اس کے برعکس جتنا انسان اپنے آپ کو بے نیاز محسوس کرتا ہے وہ خد اسے دُور ہوتا ہے اور اس سے روگردانی کرتا ہے اور سرکش ہوجاتا ہے ۔
قرآن مجید اس مطلب کو یوں فرماتا ہے ۔
’’کَلَّآ اِنَّ الِاْنْسَانَ لَیَطْغٰٓی ۔اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی ‘‘ (۳)
بیشک انسان سر کشی کرتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے ۔
اسلام نے دعا کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے اس بارے میں قرآن اور حدیث میں کئی اہم نکات اور مطالب کا
تذکرہ ہے ۔ارشاد رب العزت ہے :
’’وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ فَلْیَسْْتَجِیْبُوْ اِلْی وَلْیُؤْمِنُوْبِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُوْنَ ‘‘(۴)
جب میر ے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں ،پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب پکارتا ہے۔ لہذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پر ایمان وا عتماد رکھیں۔
شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں ۔اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کو پکارتاہے اس سے دعا کرتا ہے تو وہ سنتا ہے اور اس کا جواب دیتاہے یہ امر بندوں کودعا کی ترغیب دلاتا ہے۔ اگر چہ دعا انسان کااپنے رب سے اپنی حاجتوں کا طلب کرنا ہے لیکن اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اور اس سے روگردانی کو تکبر اور سر کشی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔قرآن فرماتا ہے :
’’وَقَالَ رَبُّکُم ُادُعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ‘‘(۵)
اور تمھارے پر دردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میر ی عبادات سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔
اس آیت میں عبادات سے مراد دعا ہے اس کے بارے میں صحیحہ زرارہ میں امام باقر ؑ فرماتے ہیں:
’’ھو الدعا و افضل العبادۃ الدعا ‘‘’’اس آیت میں دعا سے مراد عبادت ہے اور دعا بہترین عبادت ہے ‘‘دعا یعنی بندے کا اپنے آپ کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا ہے اور یہی روح عبادت ہے ۔ عبادت انسان کی غرض خلقت ہے ۔عبادت کی قدر و قیمت یہ ہے کہ یہ انسان کو اس کے رب سے مربوط کر دیتی ہے۔ عبادت میں اللہ تعالیٰ سے قصد قربت ہی اصل جوہر ہے اس کے بغیر عبادت، عبادت ہی نہیں ہے ۔ عبادت اصل میں اللہ تعالی کی طرف حرکت ہے اور اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔انسان کا اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونا اس سے براہ راست مستحکم رابطہ ہے دعاکے علاوہ کوئی عبادت ایسی نہیں ہے جو اس سے زیادہ انسان کو اللہ تعالی سے قریب کر سکتی ہو ۔سیف تما ر فرماتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ؑ سے سنا ۔آپ ؑ نے فرمایا:
’’علیکم بالدعا ء فانکم لا تتقر بون بمثلہ‘‘
(۷) تمیں دعاکی تاکید کرتا ہوں ،خد اکے قریب کرنے میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے ۔دعا نہ صرف عبادت ہے بلکہ روح عبادت ہے حضرت رسول خداؐ نے فرمایا:
’’الدعا مخ العبادۃولا یھلک مع الدعا احد‘‘ دعا روح عبادت ہے دعا کے ہوتے ہوئے کوئی بھی ہلاک نہیں ہوتا۔(۸)
دعا کی افادیت کاایک اور پہلو جو مذکورہ آیت میں بیان ہوا ہے یہ کہ اس کے قبول ہونے کی ضمانت دی گئی ہے فرمایا
’’ادعونی استجب لکم ‘‘
مجھ سے دُعا کرو میں قبول کروں گا ۔(۹)
جب انسان کو قبولیت کا وعدہ دیا گیا ہے تو سر کش اور بدبخت کے علاوہ کوئی اس سے رو گردانی نہیں کرے گا ۔ قرآن کریم میں پروردگار نے اپنی بارگاہ میں حاضری کے لیے اپنے بندوں کے سامنے چار راستے رکھے ہیں جن میں دعا سب سے اہم راستہ ہے۔ (۱۰)ارشاد الہی ہے :
’’قُلْ مَا یَعْبَؤُبِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَآؤُکُمْ‘‘
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگا ر تمہاری پر وا بھی نہ کرتا (۱۱)
یہ آیت بتا رہی ہے کہ دعاوں کی وجہ سے اللہ تعالی اپنے بندوں پر نظر کرم فرماتا ہے بلکہ پروردگار عالم اپنے بندے کی دعا کا مشتاق ہوتا ہے ۔
اما م رضا علیہ السلام نے فرمایا :
’’ان اللہ عزو جل لیُوخّر اجابۃ المومن شوقا الی دعا ئہ یقول صوتا احبّ ان اسمعہ ‘‘(۱۲)
اللہ تعالی مومن کی دعا کے شوق سے اسے دیر سے مستجاب کرتا ہے اور فرماتا ہے مجھے یہ آواز پسند ہے ۔
حضرت علی ؑ نے فرمایا :
’’احب الاعما ل الی اللہ عز وجل فی الارض الدعا ء ‘‘
زمین پر اللہ کا سب سے پسند یدہ عمل دعا ہے۔(۱۳)
دعا دو طر ح سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے گھری ہوتی ہے اللہ کی طرف سے دعا کی توفیق اور پھر اس کی قبولیت یہ دونوں اللہ کی رحمت کے دروازے ہیں ۔ جو بندے کے لیے دعا کرنے سے پہلے اور دعا کرنے کے بعد کھلتے ہیں ۔رسول خدا ؐ سے مر وی ہے :
’’من فتح لہ منکم باب الدعا فتحت لہ ابواب الرحمۃ ‘‘(۱۴)
تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل جائے اس کے لیے ابواب رحمت کھل جاتے ہیں ۔
دعا کی اہمیت میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتا ہے ۔جب ہم قرآن مجید میں مختلف انبیا ء علیہم السلام کی دعائوں کو ملاحظہ کرتے ہیں ان دعائوں سے جہاں خدا کی ان برگذیدہ ہستیوں کے مقام عبودیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی کرنے والے اور گڑگڑانے والے تھے وہاں ہمیں دعائوں کا سلیقہ اور ادب و آداب بھی معلوم ہو تا ہے جیسا کہ حضرت آدم ؑ کی دعا ہے:
’’رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ‘‘(۱۵)
ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ! ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اب اگر تو معاف نہ کرے اور رحم نہ کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں ہو جائیں گے ۔
قرآن مجید کے علاوہ کتاب مقدس کے عہد قدیم میں کتاب زبور دعاء و مناجات پر مشتمل ہے ۔دین اسلام میں دعائوں کی اہمیت و افادیت کئی پہلووں سے اجاگر ہوتی ہے ۔ہا دیان بر حق آئمہ معصومین ؑ نے نہ صر ف ان دعاوں کے ذریعے سے اپنے رب سے راز و نیاز اور مناجات کی ہیں بلکہ توحید سے متعلق اعلیٰ معارف کو ان دعائوں کے قالب میں بیان کیا ہے ۔ان کے ذریعے سے انہوں نے لوگوں کو ہدایت کی ہے ۔جب آئمہ ؑ پر ہر قسم کی پابندی تھی تو انہوں نے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی انہی دعائوں کے ذریعے کی ہے ۔آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کی دعائوں کا ایک عظیم ذخیرہ دین اسلام کے پاس موجود ہے ۔ اس ذخیرے میں چودہ معصومینؑ کی اپنی دعا و مناجات جو وہ اپنے رب سے کرتے تھے اور وہ دعا ئیں جو انہوں نے مختلف مواقع پر اپنے اصحاب کو تعلیم فرمائی ہیں شامل ہیں ۔امیر المومنین ؑ علیؑ کی منا جات اور دعائیں ہوں جیسے دعائے کمیل یا امام حسین ؑ کی دعائیں جیسے دعائے عرفہ یہ سب کی سب علم و معرفت کا عظیم خزانہ ہیں اور معرفت الہی کو اپنے کمال تک پہنچاتی ہیں ۔دعائوں کے اس سلسلہ میں حضرت امام زین العابدین ؑ کی دعائوں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ اپنی مثال آپ ہے۔اسے زبور آل محمداور انجیل اہل بیت ؑ بھی کہا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے اس کے حکیمانہ ارشادات وبصائر موثر ادعیہ و اور اد اور دل نشین حکم ونصائح آسمانی صحفیوں کے اسلوب کے آینہ دار او ر ان کی تعلیمی روح کے حامل ہیں۔ چنانچہ صاحب ریاض السالکین نے بعض اہل عرفان کا یہ قول نقل کیا ہے ۔
’’انھا تجری مجری التنزیلات السماویۃ وتسیر مسیر الصحف الوحیۃوالعرشیۃ‘‘(۱۶)
صحیفہ کاملہ آسمانی کتابوں کے اسلوب اور عرش ولوح کے صیحفوں کی کاش کامکمل نمونہ ہے ‘‘اس ذخیرے میں باقی آئمہ ؑ کی دعائوں کے علاوہ حضرت حجۃ ابن الحسن امام صاحب العصرالزمان ؑ کی دعائیں بطور خاص موجود ہیں۔ امام زمان ؑ کے متعلق دعائیں دو قسم کی ہیں ۔ ایک وہ دعائیں جو آپ ؑ سے نقل کی گئی ہیں۔ دوسری وہ دعائیں جو آپ کے بارے میں دیگر اماموں سے روایت کی گئی ہیں۔ایسی دعائوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔
۱۔امام صادقؑ کی دعا (۱۷)۔
۲۔ دعائے غریق (۱۸)۔
۳۔ ماہ مبارک رمضان میں واجب نمازوں کے بعد دُعا(۱۹)
۴۔دعائے عہد صغیر(۲۰)۔
۵۔دعائے عہد (۲۱)۔
۶۔دعائے نیمہ شعبان (۲۲)۔
۷۔ نماز عصرکے بعد کی دعا (۲۳)
۸ ۔دُعائے ندبہ:
آئمہ معصومین ؑ کی دعائیں اگر ایک طرف آل محمد ؑ کی فصاحت و بلاغت کی آئینہ دار ہیں تو دوسری طرف ان کی خصوصیات اور ذاتی کمالات کی بھی ترجمان ہیں۔ چنانچہ ان دعائوں کے پر تو میں انکی حیات طیبہ کے نقوش کو دیکھا جا سکتا ہے ۔دعائوں کی اسی اہمیت کے پیش نظر آئمہ ؑ کے اصحاب آئمہ ؑ سے مروی ادعیہ کومحفوظ کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔آئمہ ہدیؑ اپنے اصحاب سے دعائوں کے سلسلے میں جو کچھ و صیت فرماتے وہ ان کو لکھنے کے بڑے پابند تھے ۔ سید رضی الدین علی بن طاوئوس کتاب ’’مہج الدعوات ‘‘ میں امام موسی بن جعفر ؑ سے منسوب دعائے ’’جوشن صغیر ‘‘ کو نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کے صحابی ابو و صاح محمد بن عبد اللہ بن زید النھشلی نے اپنے والد عبد اللہ بن زید سے روایت کی ہے اس نے کہا کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کے خاندان کے افر اد اور ان کے شیعوں پر مشتمل ایک خاص گروہ تھا جو امام علیہ السلام کی مجلس میں اپنے ساتھ غلاف میں بڑی نرم و نازک آبنوس کی تختیاں لے کر حاضر ہو ا کرتے تھا جب بھی آپ اپنی زبان مبارک سے کوئی جملہ ارشاد فرماتے یا کوئی حکم بیان کرتے تو یہ افراد اُسے لکھ لیا کرتے تھے اسی بنیاد پر عبداللہ نے کہا ہم نے آپ کو دعا میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ۔اور اس سلسلے میں مشہورو معروف دعا ’’جوشن صغیر‘‘ امام موسیٰ کاظم ؑسے نقل کی ہے ۔(۲۴) اہل بیت ؑ سے مروی دعائوں کا عظیم ذخیرہ اور گرانبا سرمایہ احادیث و روایات کی کتب میں موجود ہے۔ ان سب کا بنیادی ماخذ وہ چار سو بنیادی کتب ہیں ۔جنہیں امام صادق ؑ کے باوثوق اور قابل اعتماد شاگردوں نے تحریر کیا انہیں ’’ اصول اربعماۃ‘‘ کہا جاتا ہے ۔اہل بیت ؑ کایہ عظیم علمی ورثہ جو ان اصول اربعماۃ پر مشتمل تھا ان ہی میں دعائوں کی کتب بھی شامل تھیں زمانے کے حالات اور ظالم و ستمگر حکمرانوں کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکا اور جب طغرل بیگ نے بغداد پر حملہ کیا اور متعدد کتب خانے جلادیے گئے تو اس عظیم علمی سرمایے کے ایک بڑے حصے سے ہم محروم ہو گئے ۔اس کے باوجود کچھ کتب خانے محفوظ بھی رہے ان میں شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی ؒ اور ان کے استاد محترم شریف مرتضی ٰ کا کتاب خانہ قابل ذکر ہیں ۔
اس حوالہ سے محقق بزرگ طہرانی اپنی کتاب الذریعہ میں تحریر کرتے ہیں ’’من جملہ دعائیہ اصول ‘‘ دعائوں کی بنیادی کتب جو اصول اربعماۃ میں شامل تھیں ‘ جو شاہ پور کتاب خانہ میں یا خاص عناوین کے تحت موجود تھے ۔ یاقوت حموی کی تشریح کے مطابق سب کے سب جل کر راکھ ہو گئے لیکن ان میں سے جو کچھ ذاتی طور پر دوسروں کے پاس موجو دتھے محفو ظ رہ گئے ۔ادعیہ ،اذکا ر اور زیارتیں ہم تک اسی طرح پہنچی ہیں جس طر ح ان اصول میں ذکر تھیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کتاب خانہ کے جلائے جانے سے چند ین سال پہلے متعدد علمائے اعلام نے ادعیہ ، اعمال اور زیارتوں کی کتابیں تالیف کی تھیں او ر جو کچھ ان ادعیہ اصول میں موجود تھا اسے اخذ کر لیا تھا۔(۲۵) ان اصول سے تالیف کی گئیں کتابیں کتاب خانے کے جلائے جانے سے پہلے جس طر ح موجود تھیں وہ بعد میں بھی موجود رہیں اور آج تک موجود ہیں جیسے ۔
شیخ یعقوب کلینیؒ وفات ۳۲۹ھ کی کتاب ’’الدعا‘‘
شیخ قولویہ وفات ۳۶۰ھ کی کتاب ’کامل الزیارات‘ ،
شیخ صدوقؒ وفات۳۸۱ھ کی کتاب ’الدعا اولمزار‘
،شیخ مفید ؒ وفات ۴۱۲ھ کتاب’ المزار‘
اور شیخ کراجکی وفات ۴۴۹ھ کی کتاب’ روضۃ العابدین‘ ۔(۲۶)
وہ دعائیہ مصادر جوان قدیمی اصول سے اخذ کیے گئے ان میں سے کتاب’’ مصباح المتہجد‘‘ جو شیخ الطائفہ ابو جعفر ؒ
وفات ۳۶۰ھ ہجری کی تالیف ہے انہوں نے ۴۰۸ھ میں بغداد میں آنے کے بعدان قدیم اصول کو اخذ کیا جو کتاب خانہ شاہ پور اور کتاب خانہ شریف مرتضیٰ میں موجود تھیں ۔انہوں نے احادیث احکام کے سلسلے میں ’’تہذیب الاحکام ‘‘ اور استبصار تالیف کیں اور دعا و اعمال کے بارے میں ’’مصباح المجتہد ‘‘کے عنوان سے کتاب تحریر کی ۔(۲۷)ا ن کے علاوہ دعائوں کے کچھ ایسے ماخذ ومصادر بھی ہیں جوساتویں ہجری تک محفوظ رہے اور کرخ بغداد میں شاہ پور کتاب خانے کے جلنے سے بچ گئے اور وہ سید رضی الد ین ابن طاوئوس (وفات ۶۶۴ھ) کے ہاتھوں میں آئے ۔وہ اپنی کتاب کشف المحجہ جسے انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے تحریر کیا ۔اس کی بیالیسیوں فصل میں لکھتے ہیں : اللہ تعالی ٰ عزوجل نے مجھے تمھارے لیے متعدد کتابیں لکھنے کاموقع فراہم کیا ۔۔۔اور اللہ سبحانہ نے مجھے ’’دعوات ‘‘ کی ساٹھ جلدوں سے زیادہ جلدیں تحریر کرنے کی توفیق دی ہے ۔جب ابن طاوئوس نے کتاب مہج الدعوات تحریر کی تو ان کے پاس دعائوں کی ستر سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔اور یہ انکی زندگی کی آخری کتاب ہے ۔ایک اور کتاب’’الیقین ‘‘میں وہ لکھتے ہیں میں نے اپنی زندگی کی اس آخری کتاب کو اس وقت تحریر کیا جب میرے پاس دعائوں کی ستر کتابیں موجود تھیں ۔(۲۸)جب ابن طاوئوس نے دعائوں کے سلسلے میں اپنی بڑی کتاب ’’اقبال الاعمال ‘‘تحریر کی تو جبعی کے بقول ان کے پاس اپنی پندرہ سو کتابیں موجود تھیں اور یہ ۶۵۰ھ کی بات ہے جب ابن طاوئوس اقبال الاعمال لکھ کر فارغ ہوئے ۔
احادیث ہو ں یا دعائیں اصحاب آئمہ اور علماء اعلام نے انہیں نقل کرنے میں خاص اہتمام کیا ہے ۔شیخ بہائی
کتا ب ’’الشمسین ‘‘ میں بیان کرتے ہیں ہمارے بزرگوں سے یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ اصحاب اصول کی یہ عادت تھی کہ وہ جب بھی کسی امام سے کوئی حدیث سنتے تھے تو وہ اس حدیث کو اپنے اصول میں درج کرنے کے لیے سبقت کرتے تھے کہ کہیں وقت گزرنے کے ساتھ پوری حدیث یا اس کا کچھ حصہ فراموش نہ کر دیں ۔(۲۹)لہذ ایہ اصول علما ء کے نزدیک مورد و ثوق تھے جب بھی وہ ان سے کوئی روایت نقل کرتے تھے تو اس کے صحیح ہونے کا حکم لگاتے تھے اور اس پر اعتماد کرتے تھے معصومین ؑ سے مروی احادیث اور ما ٔثورہ دعائوں کے صدور کو ثابت کرنے کے لیے محدیثن اور فقہائے اسلام نے متعد د اصول بیان کیے ہیں ۔جن کی بنیاد پر احادیث اور دعائوںکی سند کو جانچا جاتا ہے اوراسے غیر صحیح روایات سے تشخیص دیا جاتا ہے ۔انہی منقولہ دعائوں میں سے ایک’’ دعا ئے ندبہ‘‘ ہے
جس میں غیبت امام زمان ؑ پر اظہار افسوس اور حجت الہی سے جدائی اور دوری پر نالہ فریاد اور گریہ وزاری ہے علاوہ ازیں حاجات کو بھی پیش کیا گیا ہے ۔غیبت امام زمان ؑ میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ پوری دنیا میں اس دعا کو پڑھا جاتا ہے ۔لہذا اس کی سند بھی معصوم علیہ السلام سے ہے اس کے صدور اور مروی ہونے کے حوالے سے تحقیق کی گئی ہے ۔ تا کہ اس پر اعتماد اور اطمینان میں اضافہ ہو ۔ دُعاے ندبہ کو جن بزرگ علما اور محدثین نے نقل کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں :
1:شیخ جلیل القدر ثقہ ابوجعفر بن حسین بن سفیان بنروفری نے کتاب ’’الدعا ‘‘ میں نقل کیا ہے ۔(۳۰)
2:شیخ جلیل القدر ثقہ ابو الفرج محمد بن علی یعقوب بن اسحاق بن ابی قرہ قنانی جو شیخ نجاشی کے معاصر ہیں نے اسے نقل کیا ہے۔ (ا۳)
3: شیخ محمد بن مشہدی نے ’’المزار ‘‘ میں محمد بن ابی قرہ سے اور انہوں نے ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بنروفری سے بیان کیا ہے اور انہوں نے اسے امام زمان علیہ السلام سے نسبت دی ہے (۳۲)
4: سید بن طاوؤس نے ’’مصباح الزائراور اقبال الاعمال ‘‘ میں بعض اصحاب کے ذریعے محمد بن علی بن ابی قرہ سے اور انہوں نے محمد بن حسین بن سفیان بنروفری سے نقل کرتے ہوئے اس دعا کو امام زمان علیہ السلام کی طرف نسبت دی ہے (۲)
5: علامہ مجلسی ؒ نے اسے ’’بحار الانوار ‘‘ اور کتاب ’’زاد المعاد ‘‘میں اس دعا کو بیان کیا ہے ’’زاد المعاد ‘‘ میں وہ فرماتے ہیں کہ دعائے ندبہ جو کہ عقائد حقہ اور غیبت امام زمان ؑ پر اظہار افسوس اور حزن و ملال پر مشتمل ہے۔ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق ؑ سے نقل ہو ئی ہے (۳۴)
دعا کی سند
اس دعا کی دو سند ذکر ہوئی ہیں ۔
پہلی سند :کو سید ابن طاوؤس نے اپنی کتاب ’’مصباح الزائر ‘‘ میں بیان کیا ہے وہ ذکر کرتے ہیں
’’ذکر بعض اصحابنا قال محمد بن علی بن ابی قر ہ نقلت من کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری قدس سرہ دعا الندبہ وذکر انہ الدعاا لصاحب الزمان صلٰوت اللہ علیہ و یستحب ان ید عا بہ فی الاعیاد الاربعۃ وھو ۔۔۔۔(۳۵)
ہمارے بعض اصحاب نے بیان کیا ہے کہ دعائے ندبہ کو محمد بن علی ابی قرہ نے محمد بن الحسین بن سفیان البنروفری قدس سرہ کی کتاب سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دُعا صاحب الزمان علیہ السلام کے لیے ہے اور مستحب ہے کہ اسے چاروں عیدوں (جمعہ ،قربان ، فطر ، غدیر ) کے دن پڑھا جائے۔
دوسری سند اس سند کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے جو مختلف کتب روائی میں ذکر ہوئی ہے ’’قال محمد بن المشہدی فی المزار الکبیر : قال محمد بن ابی قرۃ : نقلت من کتاب ابی جعفر محمد بن الحسین بن سفیان البنروفری ۔۔۔۔۔(۳۶) محمد بن مشہدی نے اپنی کتاب ’’مزار کبیر ‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ محمد بن ابی قرّہ نے کہا ہے کہ ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری کی کتاب سے نقل ہو ا ہے ۔ان دو اسناد میں ایک فرق بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔وہ یہ کہ پہلی سند میں جو کمزوری نظر آرہی ہے و ہ دوسری سند میں نہیں ہے جناب مشہدی بلا واسطہ کہتے ہیں کہ محمد بن علی ابی قر ہ نے بیان کیا ہے کہ دعائے ندبہ جناب بزوفری کی کتاب سے منقول ہے جبکہ پہلی سند میں سید ابن طاوؤس فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب نے یوں کہا ہے۔ اس با ت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ علامہ مجلسی ؒ دونوںاسناد کو بیان کرنے کے بعد یو ں اظہا ر کرتے ہیں میرا گمان ہے کہ سید ابن طاوؤس نے بھی اس دعا کو جناب مشہدی سے نقل کیا اور بعض اصحاب سے مراد جناب مشہدی ہیں البتہ ایک اور بات بھی ہے اگر سید ابن طاوؤس نے دعاے ندبہ کو جناب مشہدی کے ذریعے نقل کیا ہے تو ایک اشکال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ جناب سید دعا کو ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ثم صل صلاۃ الزیارۃ وقد تقدم و صفھا تم تدعو بما احببت فانک تجاب ان شااللہ تعالیٰ‘‘(۳۷)
اس کے بعد جس طر ح پہلے بیان ہو اہے نماز زیارت بجا لاو اور پھر جو تم چاہو، مانگو ان انشااللہ تعالیٰ حاجتیں قبول ہوں گی ۔جبکہ جناب مشہدی کی کتاب ’’مزار‘‘ میں اس نماز زیارت کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ خود سید ابن طاوؤس نے اپنی کتاب اقبال الاعمال (۳۸) میں دعائے ندبہ کے بعد اس نماز کا تذکرہ نہیں کیا اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جناب سید ابن طاوؤس نے اپنی کتاب مصباح الزائر میں نماز زیارت کو بطور رجا ء بیان کیا ہے بہرحال اہل فن کے نزدیک جو سند زیادہ معتبر ہے وہ محمد بن مشہدی کی سند ہے جس کے بارے میں ہم مزید بحث کریں گے سب سے پہلے ہم کتاب ’’مزار کبیر ‘‘ کا تعارف کراتے ہیں:
کتاب مزار کبیر :۔ محمد بن مشہدی کی یہ کتاب رسول خدا ؐ اور ان کی پاک و طاہر آل کے بارے میںمنقولہ زیارتوں پر مشتمل ہے علامہ مجلسی ؒ نے بحار الانوار میں اس کتاب کو ’’مزار کبیر ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے (۳۹)
جس طرح علامہ طہرانی نے اپنی شہر ہ آفاق کتاب ’’الذریعہ ‘‘ میں بیان کیا ہے (۴۰) اور’’ مستدرک الوسائل‘‘ کے خاتمے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب کو محدث نوری نے اپنی کتاب مستدرک الو سائل کے ماخذ میں سے قرار دیا ہے (۴۱) مزار کبیر کے مقدمے کی عبارت سے واضع ہوتا ہے کہ جناب مشہدی نے اس کتاب میں فقط انہی روایات کو نقل کیا ہے جو سند کے اعتبار سے قابل اعتماد اور موثق راویوں سے منقولہ تھیں (۴۲) اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ سید ابن طاوؤس قدس سرہ نے نہ صر ف اس کتاب کو مورد اعتماد قرار دیا ہے۔ اور اس سے بہت ساری باتیں نقل کی ہیں بلکہ اس کی مدح و ستائش بھی کی ہے (۴۳)
محمد بن مشہدی کا تعارف
معجم الرجال میں آیت اللہ ابو القاسم خوئی کی عبارت سے جو انہوں نے شیخ حرّ عاملی سے نقل کی ہے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ محمد بن مشہدی ، محمد بن علی بن جعفر ہیں (۴۴)جبکہ محدث نوری مستدرک الوسائل کے خاتمے میں اس بارے میں لکھتے ہیں کہ محمد بن مشہدی سے مراد محمد بن جعفر بن علی جعفر المشہدی ہیں جنہیں ’’حائری‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے و ہ ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ابولفضل شاذان بن جبریل قمی سے روایت نقل کی ہے اور ابوالفضل سے دو واسطوں سے شیخ مفید سے رواتیں نقل کی ہیں (۴۵) بہرحال محمد بن شہدی سے مراد ان دونوں میں سے کوئی بھی ہوں (محمد بن علی بن جعفر یا محمد بن جعفر بن علی بن جعفر المشہدی ) یہ شخصیت قابل اعتماد ،مورد و ثوق و اطمینان اور جلیل القدر ہیں جن کی توصیف اور مدح کتب رجال میں بیان ہوئی ہے (۴۶)
محمد بن ابی قرہ کا تعارف
ان کے بارے میں یہ کہنا کافی ہے کہ کتاب مزار کبیر کے مصنف کے مورد اعتماد راویوں میں سے ہیں نجاشی نے ان کے بارے میں یوں کہا ہے:
محمد بن علی بن یعقوب اسحاق بن ابی قرہ ابو الفرج القنائی الکاتب کان ثقۃ و سمع کثیر اً و کتب کثیر ا و کان یو ردق لا صحابنا و معنا فی المجالس لہ کتب منھا :کتاب عمل یوم الجمعہ کتاب عمل الشہود کتاب معجم رجال ابی المفضل ،کتاب التہجد ، اخبرنی و اجازنی جمیع کتبہ ‘‘(۴۷)
محمد بن علی بن یعقوب اسحاق بن ابی قرہ ابو الفرج القنائی جن کا لقب ’’کاتب ‘‘ ہے ثقہ اور مورد اعتماد شخص ہیں کہ ان سے سنی ہوئی اور تحریری چیزیں بہت زیادہ باقی ہیں وہ ایسے شخص تھے کہ کتابوں کا ایک ایک ورق اصحاب امامیہ کے لیے پڑھتے تھے وہ ہمیشہ محافل و مجالس میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے ان کی کتابوں میں سے کچھ یہ ہیں : عمل یوم الجمعہ ۔ علم الشہور، معجم رجال ابی المفضل اورکتاب التھجد ۔ نجاشی مرحوم آخر میں فرماتے ہیں کہ محمد بن ابی قر ہ مجھ سے روایت نقل کی ہے اور مجھے اپنی تمام کتب کو آگے نقل کرنے کی اجازت دی ہے اس عبارت سے اور خاص طور پر ’’ کان یوردق لا صحابنا و معنافی المجالس ‘‘کے جملے سے واضح ہوتا ہے ’’ جمیع کتبہ ‘‘ سے بھی واضع ہوتا ہے کہ نجاشی کے پاس ابن ابی قرہ کی کتابوں کو نقل کرنے کا اجازہ بھی تھا ۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرر چہ یہ دونوں ہستیاں ایک دوسرے کی ہمعصر ہیں لیکن چونکہ جاشی کے پاس ابن ابی قرہ کی کتب نقل کرنے کا اجازہ تھا اس لحاظ سے وہ نجاشی کے مشایخ (استاد ) میں حساب ہوتے ہیں ۔
محمد بن حسین بن سفیان البزوفری
جس طرح آیت اللہ خوئی قدس سرہ نے اپنی کتاب معجم الرجال میں بیان کیا ہے کہ اس شخص کا ذکر دو طرح سے ہو ا ہے ۔(۴۸)
۱:۔ محمد بن حسین بن سفیان البزوفری ابو جعفر ۔
۲۔ محمد بن حسین البزوفری ،ابوجعفر یہ احمد بن ادریس کے شاگردوں میں سے تھے اور ان سے روایات نقل کی ہیں محمد بن نعمان یعنی شیخ مفید ؒ نے محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے روایت نقل کی ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شیخ مفید کے مشایخ (استاد ) میں سے تھے اگرچہ محمد بن حسین بن سفیان بزوفری کے بارے میں رجال کی کتب میں کوئی خاص توثیق نہیں آئی ہے لیکن اس لحاظ سے کہ یہ ان افراد میں سے تھے جن سے شیخ مفیدؒ نے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں اورمختلف موارد میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے رضا اور رحمت طلب کی ہے بغیر کسی شک و تردید کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تو ثیق کے عمومی قواعد،ان کو بھی شامل ہوتے ہیں کیونکہ بزرگوں نے فن رجال کے ماہرین سے جو قواعد بیان کیے ہیں ان میں سے ہے کہ اگر کوئی مشہور ومعروف شخصیت ہو اس نے بہت زیادہ روایات بھی نقل کی ہوں اور دوسری طرف اس کے بارے میں قد ح اور تصنعیف بھی بیان نہ ہوئی تو یہی امر اس کے حُسن ظاہر اور اس کے ثقہ ہونے کی علامت قرار پائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص گمنام نہیں ہے بلکہ مشہور و معروف ہے پس اگر ماہرین رجال اس کے حوالے سے کوئی عیب یا نقص جانتے تو وہ ضرور بیان کرتے ۔پس ثابت ہوا کہ اس دعا کا سلسلہ سند مورد اطمینان اور قابل اعتماد ہے ۔
’’انہ الد عا لصاحب الزمان ؑ‘‘ کی شرح ابن بزوفری دعائے ندبہ کو نقل کرنے سے پہلے لکھتے ہیں:
’’انہّ الدعا لصاحب الزمان صلوت اللہ علیہ ویستجب ان ید عی بہ فی الاعیادالا دبعۃ۔۔۔۔‘ (۴۹)
یہ حضرت صاحب الزمان ؑ کی دعا ہے اور مستحب ہے کہ اسے چار عیدوں (عید الفطر ،عیدقربان ،عید غدیر ،اور جمعہ ) کے دن پڑھا جائے غور وفکر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’’انہ الدعالصاحب الزمان صلوات اللہ علیہ‘‘ کے جملے کے بارے میں دو احتمال ہیں ۔
۱۔ یہ دعا ایسی دعا ہے جو امام زمانہ ؑ سے صادر ہوئی ہے ۔
۲۔ یہ دعا ایسی دعا ہے جو امام زمان ؑ کے لیے صادر ہوئی ہے نہ یہ کہ یہ آپ ؑ کی طرف سے بیان ہوئی ہے ۔ابن بزوفری مزید فرماتے ہیں ’’ویستحب ان یدعی فی الاعیاد الا ربعۃ‘‘ یعنی اس کا چار عیدوں کے دن پڑھنا مستجب ہے ۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ بزوفری کی نظر میں یہ دعا امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور سے صادر نہیں ہوئی کیونکہ اصحاب امامیہ کبھی بھی کسی ایسی دُعا کے متعلق جو غیر معصوم کی دُعا ہو ،یہ نہیں کہتے کہ مستحب ہے کہ اسے فلاں وقت پر پڑھا جائے لہذا چند قرائن کی بنا پر یہ احتمال باطل ہے کہ یہ دعا کسی غیر معصوم سے نقل ہوئی ہے یعنی کسی شیعہ عالم کی دُعا ہے ۔
۱۔ بیان ہواہے کہ ’’یستجب‘‘ مستحب ہے ۔اس دعا کا پڑھنا اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ معصوم کی طرف سے جاری ہونے والی دعا ہے کیونکہ کسی بھی فعل یا ذکر پر احکام خمسہ (واجب ،حرام ،مکروہ ،مستحب،مباح) کا حکم لگانا امور توقیفیہ میں سے ہے جو صرف اور صرف معصوم ہی انجام دے سکتا ہے ۔
۲۔ اس دعا کے پڑھنے کے لیے خاص وقت ’اعیاد اربعہ ‘ بیان ہوا ہے اور غیر معصوم کی دُعا کبھی اس خصوصیت کی حامل نہیں ہو سکتی۔
۳۔علما ء کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ جب بھی کسی دعا یا زیارت کو وہ خود بناتے اور بیان کرتے تو اس کی وضاحت کر دیتے تاکہ لوگوں کو غلط فہمی نہ ہو۔
مثال کے طور پر شیخ صدوق ؒ ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی ایک زیارت بیان کرتے ہیں جو ان کی اپنی طرف سے تھی ،زیارت نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اسے سفر حج میں مدینہ میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی قبر کے پاس پڑھا لیکن میں نے اسے اس صورت میں روایات میں نہیں پایا ۔(۵۰)
یا سید بن طاوؤس اپنی کتاب الاقبال الاعمال میں لکھتے ہیں ۔ یہ فصل ہے ان کے بارے میں جسے ہم نے خود بنایا
ہے یہ دعا ہے جو کھانا کھاتے وقت ہم ذکر کریں گے ‘‘(۵۱) وہ مزید لکھتے ہیں جوکچھ شوال کے چاند دیکھنے کے وقت ذکر کیا گیا ہے اسے ہم نے کتاب ’’عمل الشعر ‘‘ میں اس دعا کے ساتھ ذکر کیا ہے جسے ہم نے خود بنایا ہے اور یہ دعا تمام مہینوں میں پڑھی جا سکتی ہے ۔(۵۲) اسی طرح اور موارد میں بھی جہاں دعایں ان کی اپنی جانب سے ہوتی تھیں وہاں انہوں نے اس طرح کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (۵۳) ابن مشہدی کتاب ’’المزار ‘‘ میں بیان کرتے ہیں ۔ میں نے اپنی اس کتاب میں فنون زیارات سے ایسی روایات جمع کی ہیں جو قابل اعتماد اور ثقہ راویوں کے ذریعے سادات سے متصل ہیں ۔(۵۴) اگر’’ انہ الدعا لصاحب الزمانؑ سے مراد خود صاحب الزمان ؑ کی دعا ہو تو پھر اس صورت میں اسے امام ؑ کی توقیعات میں شمار کریں گے جو بزوفری کے لیے جاری ہوئی۔اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہ دعا کس معصوم امام ؑ سے نقل ہوئی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امر واضح نہیں ہے۔ کہ یہ دعا کس امام سے بیان ہوئی ہے ابن بزوفری کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعا امام زمانؑ سے بیان ہوئی ہے اب اس صورت میں ابن بزوفری نے کس طرح آنحضرت ؐکی جانب سے اسے نقل کیاہے تو اس بارے میں دو احتمال ہیں ۔اوّل یہ کہ یہ دُعا حضرت صاحب الامرؑ کی توقیعات میں سے ہے جو ابن بزوفری کے لیے صادر ہوئی جیسا کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لیےتو قیعات صادر ہوئی ہیں چونکہ ان کازمانہ غیبت صغرٰی کے نزدیک ہے ۔
دوّم یہ کہ بزوفری نے اس دعا کو اپنے والد حسین بن علی بن سفیان سے نقل کیا ہے جو کہ چو تھی صدی ہجری کے بڑے بڑے علماء اور راویوں میں سے تھے وہ نواب اربعہ کے واسطے سے خط و کتابت اور توقیع کے ذریعے امام زمان ؑ سے مربوط تھے اس دعا کو انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیا جو بعد میں ان کے بیٹے کے ہاتھ پہنچی علامہ مجلسی ؒ نے زادالمعاد میں کہا ہے ۔ کہ یہ دعا امام جعفر صادؑق سے نقل ہوئی ہے ۔(۵۵) اگرچہ بعض افراد نے اس احتمال کو رد کیا ہے اس بنا پر کہ اس دعا میں چند باتیں اور مطالب ایسے ہیں جو اس کے امام صادقؑ سے صادر ہونے منافی ہیں لیکن محققین پر واضح ہے کہ ان اشکالات کی توجیہ کی جاسکتی ہے کیونکہ اس قسم کی باتیں اور مطالب چند دیگر مقامات پر امام صادقؑ اور دوسرے آئمہ ہدی ؑ سے نقل ہوئے ہیں ۔ (۵۶)
ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہ دعائے ندبہ ،معصوم امام سے نقل شدہ دعا ہے اور دعائے غیر ماثور نہیں ۔ علاوہ ازیں جب ہم اس دعا کے مطالب پر غور کرتے ہیں تو روشن ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ وارفع مفاہیم اور روح پر ور الفاظ اور نورانی وملکوتی مطالب کسی معصوم سے ہی صادر ہو سکتے ہیں یہ چیز مزید تاکید کرتی ہے یہ دعا آئمہ ہدی ؑ میں سے کسی ایک سے نقل شدہ ہے ۔دُعائے ندبہ اپنے مطالب اور مفاہیم کے اعتبار سے اعلیٰ اور بہترین دعا ہے اسی لیے علماء اور محققین نے اسے اہمیت دیتے ہوئے اس پر حاشیے اور اس کی شرحیں لکھی ہیں۔اس میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔شرح دعائے ندبہ تالیف : صدر الدین محمد حسنی مدرس یزدی
۲۔عقد الجمان لندبۃ صاحب الزمان ، لا میراز عبدالرحیم تبریزی کے قلم سے
۳۔ وسیلۃ القربۃ فی شرح دعاء الندبۃ،شرح علی خوئی کی قلم سے