شفقنا نے مرجع عالی قدر نے کرونا کے حوالے سے پوچھے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے اس موزی مرض کے متعلق امت مسلمہ کوحقیقی رہنمائی اور تجاویز عطا فرمائی ہیں ۔
ان تجاویز میں اللہ تعالی کی شان اور بڑائی بیان کرتے ہوئے ایسے اعمال سرانجام دینے کا حکم دیا گیا ہے جن سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو اور اس وبا سے چھٹکارا حاصل ہو۔ جن اعمال کا انہوں نے بار بار کرنے کا حکم دیا ہے ان میںغریبوں اور مستحقین کو خیرات دینا، کمزوروں اور لاچاروں کی مدد کرنا ، قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ پاک سے اس وبا سے چھٹکارے کی دعا مانگنا شامل ہیں۔
آیت اللہ سیستانی نے مزید برآںایسے اقدامات پر زور دیا ہے جو غیرسائنسی اور ماہرین کی رائے کے مطابق اس وبا کی روک تھام میںمدد دے سکتے ہیں۔ انہوںنے کسی بھی مذہبی اور فقہی تفریق سے بالا تر ہو کر اس وائرس سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال پر بھی زورد دیا۔
ان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان اور سوال وجواب کی مکمل تفصیل ذیل میںہے
شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے
السلام علیم و رحمتہ اللہ وہ برکاتہ
کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میںپھیلتی جا رہی ہے اورہر آئے روز اس سے متاثرہ افراد کی تعداد میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس ضمن میں سپریم مذھبی اتھارٹی کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرف سے تجویز کردہ اقدامات جیسے کسی بھی قسم کے اجتماعات کی ممانعت وغیرہ کو سامنے رکھ کر مرجع عالی سے ذیل سوالات پوچھے گئے:
سوال: کیا کرونا وائر سے متاثرہ شخص سے ہاتھ ملانے، گلے ملنے یا بوسہ دینے سے گریز کرنا چاہیے؟ اور کیا بغیر حفاظتی اقدامات جیسا کہ ماسک پہنے بغیر ان کو ملنے جانا درست ہے؟
جواب: اگر اس طرح ملاقات سے ملنے والے شخص کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اس سے اس کو موت سمیت کسی بھی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس سے بچنا چاہیے تاوقتیکہ حفاظتی اقدامات کا بندوبست نہ کیا جائے۔ جیسا کہ ماسک کا استعمال، طبی عمل میں استعمال ہونے والے دستانے اور جراثیم کش ادوویہ کا استعمال۔ اگر وہ ان اشیا کا استعمال کیے بغیر ملاقات کرتا ہے اور وائرس زدہ ہوجاتا ہے تو اس کا گناہ اس کے سر پہ جائے گا۔
سوال: کیا ایسا شخص جس میںاس مرض کی علامات موجود ہیں وہ لوگوں کو اپنے بارے میں بتائے بغیر مل سکتا ہے؟ اور اگر وہ ان افراد کی لاعلمی میںانہیں ملتا ہے اور ان کو بھی وائرس زدہ کر دیتا ہے تو ایسے شخص کی ان افراد کے لیے کیا ذمہ داری لازم ہے؟
جواب: اول تو ایسے شخص کے لیے ممانعت ہے کہ وہ لوگوں کو ملے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے اور دوسروں کو اس مرض میں مبتلا کر دیتا ہے تو وہ ان کو پہنچنے والے تمام تر نقصان کا ذمہ دار ہے اور اس پر ان افراد کی خون بہا کی رقم واجب ہے۔
سوال: کیا ایسے شخص کو جو دوسرے ملک سے آیا ہو اور ایسے افراد سے بھی میل جول رکھتا رہا ہو جو اس مرض سے متاثرہ ہیں اپنے آپ کو قرنطینہ کر لینا چاہیے اور اپنے حوالے سے میڈیکل سنٹرز کو اطلاع دینی چاہیے؟
جواب: بالکل ! ایسے شخص کے لیے قرنطینہ ضروری ہے اور اس متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات پر عمل کرنا بھی لازم و ملزوم ہے۔
سوال: کیا کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک، دستانے، جراثیم کش اور دیگر ادویات وغیرہ خریدنے کے لیے دینی کمائی یعنی زکوٰۃ یا خمس وغیرہ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔
جواب: اس مقصد کے لیے زکوٰۃ یا خمس کی رقم خرچ کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
سوال: وہ اہل ایمان جوکہ انتہائی مشکل حالات میں اس خطرناک وبا سے لڑ رہے ہیں ان کے لیے آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں؟
(الف) اللہ عزو جل سے اس اس آفت کے ٹلنے کی دعا مانگنی چاہیے اور احسن اقدامات جیسا کہ غریبوں کو خیرات، کمزوروںاور لاچاروںکی مدد، قرآن کریم کی تلاوت اور وہ دعائیں جو حضور اکرم ﷺ اور اہل بیت علیہ السلام سے روایت ہیں وہ مانگنی چاہیں۔
(ب) اس وبا سے متعلق مکمل آگاہی اور موجودہ حالات کے مطابق مناسب اقدامات کرنے چاہیں۔ خوفزدہ نہیںہونا چاہیے اور ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں جو کہ ماہرین نے تجویز کی ہوںاور اس کے ساتھ ساتھ اس ضمن میںغیر سائنسی طریقوں کی نفی بھی ضروری ہے۔
(ج) ایسے افراد کو جو اس خطرے کو معمولی سمجھ رہے ہیں ان کو اس کی ہولناکی کے بارے آگاہ کریںاور ان اس بات پر قائل کرنا کہ وہ متعلقہ اداروںکی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کریںاور ان کی پامالی نہ کریں۔
(د) ایسے خاندانوں کی مالی مدد جو ایسے حالات میںبے روزگار اور بے یارو مددگار ہیں۔
(ہ) تمام مریضوں کی مسلکی وابستگی سے بالا تر ہو کر مدد کرنا اور ان کی مشکلات کو کم کرنے اور ان کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا۔
اللہ عزوجل تمام لوگوں سے بدی اور شر کودور فرمائیں اور امت مسلمہ کو اپنی رحمتوں، کرم اورنعمتوں سے نوازیں (آمین )