بس جس رفتار سے نکلی تھی لگتا تھا کہ گیارہ مارچ کی صبح کا ناشتہ کوئٹہ میں ہوگا ۔ اگلا پلان میرے ذہن میں ترتیب پا چکا تھا ۔ ارادہ یہ تھا کہ کوئٹہ پہنچ کر تھوڑا تازہ دم ہونے کے بعد ائرپورٹ جایا جائے اور لاہور یا فیصل آباد میں سے جس شہر کی پرواز میسر ہو پکڑ لی جائے ۔

لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں ابھی تک اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ آیا ہمیں کوئٹہ سے آگے جانے دیا جائے گا یا نہیں ۔
کوئی ایک گھنٹہ کی مسافت طے ہوئی تھی کہ ایک چوکی پر بس کو روک لیا گیا ۔ ایف سی کے جوان کے بس کے اندر آنے سے پہلے ہی کنڈیکٹر نے ہمیں اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈر نکالنے کا کہا ۔

ایف سی کے جوان نے بس کے اندر آتے ہی ان مسافروں سے جو ایران سے آ رہے تھے کے پاسپورٹس اور شناختی کارڈز مانگ لئے ۔ یہاں پتہ چلا کہ اس بس میں مجھ سمیت صرف گیارہ مسافر ایران سے واپس آئے ہیں اور باقی سارے تافتان کے رہنے والے ہیں ۔ سوال پھر وہی کہ باقی کے بائیس مسافروں کو اس بس میں ہمارے ساتھ سفر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟ ایف سی کے جوان نے سمری کو سادہ کاغذ پر لکھنے کے بعد بس کو آگے جانےکی اجازت دے دی ۔

اس کے بعد تو یوں لگا کہ چوکیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر چوکی پر پاسپورٹس لئے جاتے شناختی کارڈز دیکھے جاتے اور پھر بس اپنی منزل کی طرف چل پڑتی ۔ مجھے اتنی زیادہ چیکنگ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ بس نے محفوظ روٹ اختیار کیا ہے ورنہ چند سال پہلے دیکھی وڈیوز کا خوف میرے ذہن میں اب بھی تھا جس میں ایران سے آنے یا جانے والے مسافرین کو بسوں سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ ان وڈیوز کے بارے بس سٹینڈ کے منیجر سے تفصیلی گفتگو ہو چکی تھی اور بقول منیجر اب وہ حالات نہیں ہیں اور یہ کہ وہ سب پیسے کا کھیل تھا ۔ اب اللہ جانے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ لیکن بس میں موجود وہ تمام مسافر جو اس روٹ پر پہلی بار سفر کر رہے تھے اس زبردست چیکنگ کے نظام کو دیکھ کر خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے ۔

اس دوران پچھلے سیٹوں پر بیٹھے دونوں نوجوانوں کے نام بھی معلوم ہو چکے تھے ۔ دونوں سگے بھائی مصطفی اور فرمان ایران محنت مزدوری کے لئے گئے تھے ۔ دوسری جانب ایک شخص جس کا نام اعجاز تھا ایک نسبتا زیادہ عمر کے مسافر کے ساتھ کسی بحث میں مصروف تھا۔

بس ایک سٹاپ پر رکی تو دو خواتین دو لڑکوں کے ساتھ سوار ہوئیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں خواتین میں سے ایک کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ بس کے کنڈیکٹر کو بار بار بس کی پچھلی سیٹوں پر جا کر اس ابنارمل خاتون کو چپ کرانا پڑتا جو بظاہر دونوں لڑکوں کے قابو سے باہر ہو جاتی تھی ۔

ایک بار پھر نسبتا بڑی عمارت کے سامنے بس کو دوبارہ رکنے کا کہا گیا ۔ اس بار تمام مسافرین کے پاسپورٹس اور شناختی کارڈر جمع کر کے عمارت میں موجود کنٹرول روم میں بھجوا دئیے گئے ۔ آدھا گھنٹا گزرنے کے بعد ان مسافرین کو جو ایران سے آ رہے تھے کو کنٹرول روم میں طلب کرلیا گیا ۔ ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ معاملات زیادہ سنگین ہیں ۔ ایک مسافر سے دوبارہ پرانے سوالات پوچھے گئے ۔ معلومات درج کی گئی پاسپورٹس کی تصاویر موبائل کیمرے سے لی گئیں ۔ کنٹرول روم میں موجود افسر واکی ٹاکی پر مسلسل ہدایات لے رہا تھا ۔ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا رھا ۔ تافتان کے رہائشی اس بات پر سخت ناراض نظر آ رہے تھے کہ ایران سے واپس آئے مسافرین ان کے لئے زحمت کا سبب بنتے جا رہے تھے ۔ دونوں گروپوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ ایف سی کے جوانوں نے معاملہ رفع دفع کرا دیا ۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی بحث و تکرار کے بعد بس کو دوبارہ روانہ کیا گیا ۔

بس ڈرائیور کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ بس کو شاید کوئٹہ داخل نہ ہونے دیا جائے لہذا جو مسافر اترنا چاہے اتر جائے ۔ بعد میں یہ آفر ان مسافرین کو باقائدہ اعلان کی ساتھ دی گئی جو ایران سے آئے تھے ۔ مجھ سمیت چند دوستوں کو یہ آفر پسند نہ آئی جس کا اظہار ہم نے وہیں کر دیا جس پر بس کے عملے اور دیگر تافتانیوں کی جلی کٹی سننا پڑیں ۔ پھر کہا گیا کہ اگلی چیک پوسٹ پر کوئی پاسپورٹ نہ دکھائے مجھے یہ ہدایت بھی انتہائی بچگانہ لگی۔

نصف شب تمام ہو چکی تھی ۔ مجھ سمیت تمام مسافروں کا نیند اور تھکن سے برا حال تھا ۔ ہلکی بارش اور تیز ہوا نے سردی کے اثر کو کئی گنا بڑھا دیا تھا ۔ بس کا ہیٹر اپنی بھرپور کوشش میں لگا تھا کہ کسی طرح مسافروں کو آرام مہیا کر سکے ۔ مسلسل چیکنگ کی وجہ سے بار بار آنکھ کھل جاتی ۔ کئی چیک پوسٹس تو غنودگی کے عالم میں گزر گئیں جن کا احوال مجھے یاد نہیں ۔ میں اپنے تئیں کوئٹہ میں ایک شب قیام کا فیصلہ کر چکا تھا ۔ مجھے تہران سے نکلے چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہو چکے تھے لیکن اس دوران سونے یا کمر سیدھے کرنے کا کوئی ایک موقع بھی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ خدا جانے باقی مسافر جو ایران سے آ رہے تھے کن مشکلات سے گزرے تھے ۔

صبح تقریبا تین بجے بس کوئٹہ سے باہر ایک علاقے جس کا نام میاں غنڈی پہنچی تو ایک بار پھر ایک چوکی پر روک لیا گیا ۔
ایک بس وہاں پہلے سے موجود تھی ۔ اللہ بھلا کرے گوگل میپ کا جس نے بتایا کہ کوئٹہ یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ مسافریں میں یہ خیال زور پکڑ چکا تھا کہ بس کو اس سے آگے نہیں جانے دیا جائے گا ۔

جاری ہے۔۔۔۔