ساری دنیا سعودی عرب اور ایران کے بارے میں سب جانتی ہے۔ آج کسے نہیں معلوم کہ ایران ایک شیعہ ملک ہے، جو اخلاقی و سماجی و تعلیمی اور مذہبی بنیادوں پر اہل تشیع کی مدد کرتا ہے، اسی طرح سعودی عرب ایک وہابی و سلفی ملک ہے، جو اہل حدیث، دیوبندی، وہابی و سلفی کہلانے والے حضرات کی سرپرستی کرتا ہے۔ اسلام کے دو ہی اصلی اور قدیمی فرقے ہیں، شیعہ اور سُنی۔ سعودی عرب کے قیام سے پہلے دنیا میں خلافت عثمانیہ کے نام سے اہل سنت کی خلافت اور حکومت موجود تھی۔ یہ خلافت اپنے زمانے کے مسلمانوں کے درمیان مقبول ترین خلافت تھی۔استعمار برطانیہ نے آلِ سعود کے ساتھ مل کر اس خلافت کو ختم کروایا اور سعودی عرب میں اہلِ سنت کے بجائے عبدالوہاب نجدی کے نظریات و افکار پر مبنی ایک نئی ریاست کو قائم کیا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک بھی سُنّی ریاست نہیں ہے۔
آلِ سعود کی اس وہابی و سلفی ریاست نے اہلِ سنت کی ساری تاریخ پر پانی پھیر دیا، یہاں تک کہ اہل سنت کے اکابرین و مقدسین کے مزارات بھی گرا دیئے اور آج بھی اہل سنت کو وہاں کسی بھی قسم کی مذہبی اور سیاسی آزادی حاصل نہیں ہے۔ سعودی حکومت کی یہ کارروائی کوئی عجیب بات نہیں، دنیا میں جہاں بھی حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں تو نئے حکمران پرانے حکمرانوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ سعودی حکمرانوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے ہر قبیح اور برے کام کو بھی اہلِ سنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً آج بھی اگر وہ کہیں طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی یا داعش جیسے دہشت گرد ٹولے بناتے ہیں تو ان پر اہلِ سنت کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ اصلی و قدیمی اہلِ سنت کو سعودی منہج والے مسلمان ہی نہیں سمجھتے اور اسی طرح جو حقیقی اہلِ سنت ہیں، ان کے اکابرین اور علماء اپنے آپ کو وہابی نہیں کہنے دیتے۔
تاہم رائے عامہ کو دھوکہ دینے کیلئے ہر نالائق، احمق اور ظالم شخص کو اہلِ سنت کہہ دیا جاتا ہے۔ آپ عراق کے صدام کو ہی لیجئے، اس کا اہلِ سنت سے کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ ہی اس نے اہلِ سنت کی کوئی خدمت کی ہے۔ وہ عزت ابراہیم الدوری کی حزب بعث کا ایک سوشلسٹ ڈکٹیٹر اور آمر تھا، وہ ساری زندگی سوشلزم کیلئے لڑا، لیکن اہل سنت کو یہی کہا گیا کہ صدام ایک سنی حکمران ہے۔ صدام، قذافی، سعودی بادشاہوں اور حسن مبارک جیسوں کو سنی کہنا دراصل اہل سنت کے ساتھ سخت زیادتی ہے۔ اہلِ سنت مسلمان آج بھی دنیا میں اکثریت سے ہیں۔ صرف ہمارے پاکستان میں تقریباً ستر سے پچھتر فیصد اہل سنت مسلمان بستے ہیں، جنہیں ہم بریلوی کہتے ہیں، ان کا طریق خالصتاً صوفیانہ، محبت، صلح، دوستی اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔
آمروں، شدت پسندوں، دہشت گردوں، قاتلوں، درندوں اور اے پی ایس کے معصوم بچوں کے قاتلوں کو سُنی کہنا یہ مکتبِ اہل سنت کی توہین ہے۔ اس ظلم و زیادتی کے خلاف خود اہل سنت کے اکابرین کو بھی آواز بلند کرنی چاہیئے۔ دوسری طرف میں اہل تشیع برادران سے بھی یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ دشمن کی چالوں میں نہ آئیں اور اس بات کو سمجھیں کہ ہر سنی کہلانے والا سُنی نہیں ہے۔ سُنی اور شیعہ تو اسلام کی دو آنکھیں اور دو پر ہیں، اسلام ان دو آنکھوں کے ساتھ دیکھتا اور پرواز کرتا ہے۔ اگر سعودی عرب بیت المقدس کو امریکہ و اسرائیل کی گود میں ڈال دیتا ہے تو اس کا الزام اہل سنت کو نہ دیں۔ اگر سعودی افواج یمن، شام اور بحرین میں قتلِ عام کرتی ہیں تو اس کا ذمہ دار اہلِ سنت کو نہ ٹھہرائیں، اگر داعش، القاعدہ اور طالبان انسانوں کے سروں سے فٹبال کھیلتے ہیں تو خدانخواستہ اپنے اہلِ سنت بھائیوں سے بدظن نہ ہو جائیں۔
آپ جائیں اور آزادانہ تحقیق کریں کہ آلِ سعود کون ہیں اور سعودی ریاست کیسے وجود میں آئی!؟ آپ کے درمیان اہلِ سنت کے علماء موجود ہیں، آپ ان سے پوچھ لیں کہ کیا سعودی ریاست ایک سُنی ریاست ہے!؟ یہ لوگ جو بات بات پر جھوٹ گھڑتے ہیں، جو ایک وائرس کو بھی فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرتے ہیں، جو سعودی عرب کے تحفظ کیلئے ایران کو بدنام کرنے کی خاطر اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ سانحہ راجہ بازار میں اپنے ہی لوگوں کو قتل کرکے، پھر اپنے ہی مدرسے کو آگ لگا دیتے ہیں، ان کا اہلِ سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سعودی عرب کے دسترخوان پر بیٹھ کر جو طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور داعش کو سُنی لکھتے ہیں، یہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔
اہلِ سنت ایسے لوگوں سے بیزار ہیں اور قطعاً ایسے جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔ دشمن نے قیامت کی چال چلی ہے اور ہر ظلم، بدکاری اور مکاری کو اہل سنت سے منسوب کر دیا ہے۔ آج بھی اہل سنت خانہ کعبہ اور کربلا و مشہد کی ویرانی پر اداس ہیں، یہ ان سب مقامات کے ساتھ یکساں طور پر محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، انہیں کسی سے اندھا بغض نہیں اور نہ ہی یہ لاشوں پر مذہبی سیاست کرتے ہیں۔ لہذا دشمن کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کی چالوں میں نہ آئیں۔ ہم خواہ شیعہ ہوں یا سُنی ہم ہمیشہ ہوشیار رہیں کہ دشمن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کرونا وائرس کے مسئلے پر بھی کن الفاظ کو استعمال کرکے ہمیں دھوکہ دے کر تقسیم در تقسیم کرسکتا ہے۔