بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ سادہ لوحی اور غلط فہمی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ صرف وہیں ہے جہاں بم پھٹتے ہیں، اگر بارود کی بو نہیں تو امن ہی امن ہے۔ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ ہم سادہ لوح ہیں لیکن ہمارا دشمن سادہ لوح نہیں ہے۔ آج ہمارا چالاک دشمن ہمارے سامنے دشمن بن کر نہیں آتا ، وہ ہمدرد اور دوست بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ رفاہِ عامہ اور فلاح و بہود، امن کے سندیسے ،پیار کے گیت ،محبّت کے ترانے،امن و آشتی کی فلمیں ، ثقافتی دھنیں ، اور کلچرل ایونٹس لے کر آتا ہے۔
آج دشمن ہتھیار لے کر ہمارے گھروں میں نہیں گھستا بلکہ ٹی وی، فلم ، موبائل اور جدید تعلیم سے ہمارے دماغوں میں گھستا ہے۔ دماغوں میں گھسنے کے بعد وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتا ہے۔ دماغ میں موجود تمام دینی،ثقافتی اور معنوی مورچوں کو مسمار کردیتاہے ، انسان کے عقائد کے قلعے کو ڈھادیتاہے اور ہمارے جیسے سادہ لوحوں کی گردنوں پر سوار ہوجاتاہے۔
ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ ہم موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر وغیرہ کے نت نئے ماڈل دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مغرب کی جدید ایجاد کردہ ٹیکنالوجی ہے۔ ہم فیس بُک اور وٹس اپ پر فریفتہ ہوئے بیٹھے ہیں کہ واہ مغرب کی ٹیکنالوجی کے کیا کہنے! ہم نہیں جانتے کہ مغرب کی اصل ٹیکنالوجی یہ ٹولز نہیں ہیں، بلکہ مغرب کی حقیقی ٹیکنالوجی سوشل سائنسز ہیں، اِن سارے ٹولز اور سوفٹ وئیر ز کے ذریعے سوشل سائنسز کو ہمارے دماغوں اور ہمارے معاشرے میں منتقل کرنے کیلئے بطورِ آلہ ایجاد کیا گیا ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ جسے ہم مغرب کی ترقی سمجھ رہے ہیں وہ ہمارا اپنا فکری مغالطہ ہے۔ ہماری مثال بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک میک اپ روم میں داخل ہوجائے، وہاں قدِ آدم آئینے کے سامنے گھنٹوں کھڑا رہے، پھر جب باہر نکلے تو اس کے منہ پر اسی طرح گندگی لگی ہوئی ہو اور بال بکھرے ہوئے ہوں ، اور وہ لوگوں کے سامنے آئینے کی تعریفیں کرے کہ واہ کیا خوبصورت آئینہ تھا۔ اس شخص کو آئینے میں اپنی صورت دیکھنی چاہیے تھی نہ کہ آئینے کی خوبصورتی۔
جب ہمیں پتہ ہی نہیں کہ اصل ٹیکنالوجی افکار ہیں یا ٹولز، تو یہی وجہ ہے کہ ہمارے شکوے بھی ناسمجھی پر مبنی ہوتے ہیں، ہم علمائے کرام سے کہتے ہیں کہ وہ جی ہمارے علمائے کرام نے تو ڈسپرین سے لے کر انسٹا گرام تک کچھ نہیں بنایا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شکایت کرے کہ جان اسٹوارٹ مل نے ریل گاڑی کیوں نہیں بنائی، ارسطو نے ایٹم بم کیوں نہیں بنایا، افلاطون نے ہوائی جہاز کیوں نہیں بنایا، سقراط نے بلب کیوں نہیں ایجاد کیا، ڈارون نے پنکھا کیوں نہیں بنایا!؟
ہمیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ یہ جتنی ایجادات ہیں ، یہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں یہ کیمسٹری، فزکس، بیالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لوگوں نے ہی کرنی ہیں، اگر ہمارے ہاں ان شعبوں میں ترقی نہیں ہوئی تو اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو اِن علوم میں وارد ہوئے۔ ان شعبوں میں ترقی نہ ہونے کی ذمہ داری علمائے کرام پر ڈالنا انصاف اور عدالت کے خلاف ہے۔ یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے۔
یہ کہاں کی روشن فکری ہے کہ ہم اپنی نالائقی کو علمائے کرام کے کھاتے میں ڈالیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب لوگ علامہ طاہرالقادری صاحب سے ایٹم بم، مولانا فضل الرحمان صاحب سے پنسلین ، علامہ ساجد نقوی صاحب سے میزائل ، علامہ ناصرعباس جعفری صاحب سے تھرما میٹر اور مولانا طارق جمیل صاحب سے کرونا کی ویکسین نہ بنانے کا گِلہ کرتے ہیں۔
ہمیں اگر علمائے کرام سے گلہ کرنا ہے تو ان کا میدان سوشل سائنسز کا میدان ہے، ہم ان سے جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق سیاست، صحت ، رفاہِ عامہ ، کلام، فلسفہ،منطق منصوبہ بندی، مدیریت، اقتصاد، تعلیم، تربیت، اخلاق، فقہ، عرفان، تمدن، تاریخ۔۔۔ کے حوالے سے کرنا چاہیے۔ ہم ان سے یہ سوال تو کر سکتے ہیں کہ آج کے دور کے مطابق اور آج کے انسان کیلئے آپ نے اسلامی منابع سے کون سا نظام وضع کیا ہے ، کون سی نئی تھیوری دی ہے اور کونسا نیا فلاحی منصوبہ پیش کیا ہے!؟ لیکن ہم ان سے یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ آپ نے ابھی تک کوئی ٹول اور کوئی سوفٹ وئیر کیوں نہیں بنایا۔
بقولِ اقبال:
شکوہ بے جا بھي کرے کوئي تو لازم ہے شعور