شفقنا اردو: جمعرات کی شام ٹیلی تھون کے بعد وزیر اعظم صاحب ایک مرتبہ پھر مولانا طارق جمیل کو اپنی گواہی دینے کے لئے بلا لائے۔ اور طارق جمیل صاحب نے بھی کیا خوب گواہی دی۔ فرمایا کہ وزیر اعظم صاحب آپ ایماندار ہیں، محنتی ہیں، 22 کروڑ میں سے کتنے محنتی ہیں؟ کتنے ایماندار ہیں؟ نجانے کیوں، یہ کہتے ہوئے ان کا گلا بھی رندھ گیا۔
گلا تو اور بھی بہت سے پاکستانیوں کا رندھ گیا ہوگا۔ کیونکہ ہم سب انہی 22 کروڑ میں آتے ہیں جن کی غالب اکثریت مولانا صاحب کے حساب سے انتہائی نکمّی اور بددیانت ہے۔ وہ مزدور جو کئی کئی گھنٹے دھوپ میں اینٹیں اور بوریاں اٹھاتے ہیں، وہ محنتی نہیں ہیں۔ صبح پانچ بجے اٹھ کر سب گھر والوں کے لئے کھانا بنا کر بچوں کو اٹھا کے سکول کے لئے تیار کرنے کے بعد سکول جا کر 2000 روپے مہینہ پر سارا سارا دن کئی کئی سو بچوں کو پڑھانے والی استانی بھی محنتی نہیں ہے۔ وہ لڑکے جو سارا سارا دن بسوں میں دھکے کھاتے ہیں لیکن اپنے کلائنٹ کی پروڈکٹ میں سے کوئی چیز غائب نہیں کرتے، وہ ایماندار نہیں ہیں۔ ایماندار ہے تو وہ حاکمِ وقت کہ جس کے قصیدے مولانا آئے روز ٹی وی پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔
پھر بتایا کہ ہماری قوم انتہائی جھوٹی ہے۔ ایک واقعہ سنایا کہ ایک بہت بڑے چینل کے مالک نے ان سے نصیحت کی درخواست کی تو مولانا نے ان کو جواب دیا کہ چینل سے جھوٹ ختم کر دو۔ انہوں نے جواب دیا چینل بند ہو سکتا ہے، جھوٹ نہیں۔ چینل کا نام نہیں بتایا۔ بعد میں ایکسپریس نیوز پر جاوید چودھری نے پوچھا وہ کون سے چینل کے مالک تھے، مولانا نے فرمایا پیٹھ پیچھے بات کرنا غیبت ہوگی۔
پوچھا کہ منہ پر ان کو جھوٹا کہا تھا۔ بولے ایسا کرنا حرام ہوتا۔ یہ چینل کا مالک جو کوئی بھی تھا، اگر تھا تو، یہ صرف ایک میڈیا چینل کا مالک ہوگا۔ مولانا صاحب نے اس کا اور اس کے چینل کا نام نہ بتا کر تمام چینلوں اور پورے میڈیا ہی پر جو الزام لگا دیا ہے، کیا اس حوالے سے کوئی حدیث مولانا کی نظر سے نہیں گزری؟
کرونا سے لڑنے کے انہوں نے چار طریقے بتائے۔ ان میں سے ایک تھا اخلاق اچھے کرنا۔ اور اخلاق کا سب سے اونچا مقام ان کے نزدیک حیا ہے۔ یہاں پہنچ کر ان کا گلا ایک بار پھر رندھ گیا۔ کہنے لگے اب میں کیسے بات کروں؟ میرے دیس میں بے حیائی کون پھیلا رہا ہے؟ یہاں ایک کلپ ملاحظہ کیجئے۔
یہ بیان حور سے متعلق تھا۔ فرما رہے ہیں کہ حور نے سو جوڑے پہن رکھے ہوں گے، سو جوڑوں میں سے اس کا جسم نظر آ رہا ہوگا۔ یہ صرف ایک بیان ہے، ایسے کئی الفاظ وہ ماضی میں حوروں کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔
حیرت ہے کہ وہ اب بھی جاننا چاہتے ہیں کہ میرے دیس میں بے حیائی کون پھیلا رہا ہے۔ رہ گیا ان کا یہ سوال کہ دیس میں بیٹیوں کو کون نچا رہا ہے اور ان کے لباس مختصر کون کروا رہا ہے، تو ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے جذبات اپنے بیانات کے ذریعے انگیختہ کر کے آپ گھر بھیجتے ہیں، وہ دنیا میں بھی تو حور دیکھنا چاہ سکتے ہیں۔ جس بیانیے کی ترویج آپ کر رہے ہیں، اس کے بعد معاشرے میں بے حیائی پھیلنے پر رونا کیسا؟
مولانا صاحب نے فرمایا کہ جب کسی قوم کی لڑکیاں بے حیائی پر اتر آئیں اور نوجوان بے حیائی پر اتر آئیں تو اللہ وہاں سے اپنی رحمت اٹھا لیتا ہے، سب سے زیادہ عذاب قومِ لوط پر آیا کیونکہ یہ قوم بے حیائی میں تمام حدیں عبور کر گئی تھی۔ مولانا صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ مسلم دنیا میں کرونا نے سب سے زیادہ تباہی ایران میں مچائی ہے۔
وہاں گذشتہ 41 سال سے اسلامی شریعت کا نظام ہے اور اتنا سخت ہے کہ کوئی لڑکی پورے کپڑے پہن کر بھی ڈانس ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دے تو جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے حق میں کوئی عورت ویڈیو بنائے تو ریاست گرفتار کر کے جیلوں میں رکھتی ہے اور پھر قومی ٹی وی پر معافی منگواتی ہے۔
آخر اس باحیا معاشرے پر اللہ نے کس بات کا عذاب نازل کیا ہے؟ یقیناً مولانا صاحب کے پاس اس کی تاویل ہوگی۔ کہ یہ آزمائش ہے۔ وہ سب کچھ سوچ لیں گے، اس نکتے پر نہیں آئیں گے کہ مائیکرو بیالوجی پر ریسرچ کے لئے زیادہ بجٹ مختص ہونا چاہیے تاکہ ایسے جراثیم کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ بات ان کے علم میں ہی نہیں ہوگی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے دنیا کے بڑے بڑے فارماسوٹیکل انڈسٹریز کے ٹائیکونز کے مفادات کو گزند پہنچے گی اور ریاستوں کو اپنے غیر ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کم کرنا ہوں گے۔ اس طرف آنے سے علما عموماً گریز کرتے ہیں۔