حامد میر کا کہتا ہے وہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے راستے کا پیروکار ہے
حامد میر سمجھتا ہے کہ جب وہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری سے اپنی نسبت جوڑے گا اور خود کو اُن کے راستے کا پیرو کہے گا تو شاید پاکستان میں رہنے والوں میں سے کسی کا حافظہ اتنا ساتھ نہیں دے گا کہ وہ نئی نسل کو یہ بتا پائے کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کا صحافت میں نظریہ اور راستا تھا کیا؟
مولانا ظفر علی خان کا اخبار زمیندار اور پیسہ دونوں کے دونوں انگریز کالونیل دور کے پنجاب میں انگریز سامراج کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے والی یونینسٹ پارٹی اور اس میں شامل جاگیردار اور زمیندار اشرافیہ کے ترجمان اخبار تھے اور جبکہ نظریاتی اعتبار سے مولانا ظفر علی خان رجعت پسندانہ مذھبیت کے قائل تھے- تحریک خلافت کے دوران جب حجاز پر وہابی تحریک کے سرغنہ ابن سعود نے برطانوی سامراج کی مدد سے قبضہ کرلیا اور سیاسی مذھبی تحریکوں میں سب سے رجعت پسندانہ تنگ نظر تحریک وھابیت کے خیالات کو زبردستی نافذ کرکے سعودی عرب کی بنیاد رکھی گئی تو انہوں نے اس تحریک کے سیاسی رہبر ابن سعود کا ہر قدم پہ ساتھ دیا- اور برطانوی سامراج کے مشرق وسطیٰ کی ازسرنو تقسیم اور تُرک عثمانیوں کو گرانے کی سازش کا ساتھ دیا
شورش کاشمیری اول دن سے برصغیر میں کالونیل دور کی پہلی پولیٹکل اسلام کی علمبردار جماعت انجمن مجلس احرار کے صف اول کے مقرر شعلہ بیان تھے اور اُن کی شعلہ بیانی اور قلم کی جولانیاں ہمیشہ فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے میں صرف ہوئیں، پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی مجلس احرار نے جمہوریت کا تختہ گول کرنے والے ہر رجعت پسندانہ اقدام کا ساتھ دیا
شورش کاشمیری 70ء میں پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے سوشلسٹ منشور کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیتے رہے اور اپنے مخالف کے خلاف ہر ایک جھوٹ کو پروان چڑھاتے نظر آئے
تحریک پاکستان کی مخالفت میں وہ اور اُن کی جماعت احرار پیش پیش تھیں- اور جناح سمیت لیگ کی چھوٹی بڑی قیادت پر کیچڑ اچھالنے میں احرار سب سے آگے تھے- اور کاشمیری اور ان کے دیگر رہنماء مذھبی منافرت پر مبنی تحریکوں کا ہر اول دستہ تھے- حامد میر اُسامہ بن لادن سے لیکر تکفیری ملاؤں تک کو اپنا رہبر اور اپنا ھیرو قرار دیتا ہے- کیا اُس کے بعد بھی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے