شفقنا اردو: چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کافی عرصے سے چل رہی ہے لیکن کورونا وائرس کی عالمی وبا اور امریکہ میں آنے والے صدارتی انتخابات نے اس تناؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان لفظوں کی جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔
آخر امریکہ کی حکمت عملی ہے کیا؟
اس ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت کے لیے انتخاب کی مہم کے ایک نئے مرحلے سے گزرے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا ’چین وہ سب کچھ کرے گا جس سے میں انتخاب ہار جاؤں۔‘
ان تلخ بیانات سے آنے والے دنوں میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اور زیادہ اضافہ ہونے کا اشارہ بھی ملتا ہے۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم میں امریکہ کی پھلتی پھولتی معیشت کو مرکزی نکتہ بنایا جانا تھا لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ٹرمپ بہت سی ریاستوں میں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں کیونکہ کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں ناکامی پر ان کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں چین سامنے آتا ہے جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی۔ چین پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے وبا کو دنیا بھر میں پھیلنے سے روکنے میں سستی سے کام لیا۔
رپبلکن پارٹی کی حکمت عملی سابق نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو نشانہ بناتی ہے۔
ٹرمپ کی اتحادی ’امریکن فرسٹ ایکشن‘ تنظیم کی سیاسی کمیٹی اشتہارات دے رہی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ ’بیجنگ بائیڈن‘ واشنگٹن کی اشرافیہ امریکہ میں چین کو سازگار ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں اور بائیڈن اس مہم کے سربراہ ہیں۔
جو بائیڈن نے جواباً ایک اشتہار دیا ہے جس میں صدر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کورونا وائرس کی وبا پر ہونے والی تنقید کا رخ موڑنا چاہتے ہیں اور ابتدا میں انھوں نے چین سے ملنے والی معلومات پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کیا۔
اگرچہ دونوں جماعتوں کے موقف میں تضاد ہے لیکن اس تضاد میں بھی ایک چیز یکساں ہے کہ اور وہ یہ کہ دونوں کے خیال میں بیجنگ کو نشانہ بنانا سیاسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو گا۔
اے ایف اے کے رکن کیلی سیڈلر کا کہنا ہے کہ اگر آپ گیلپ اور پیؤ کے رائے عامہ کے جائزوں پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ چین پر عدم اعتماد چاہیے۔ کسی کا تعلق رپبلکن سے ہو یا ڈیموکریٹک پارٹی سے یہ اپنی انتہا پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس معاملے پر رپبلکن اور ڈیموکریٹکس میں اتفاق ہے۔‘
چین مخالف جذبات میں اس وقت سے اضافہ ہوا ہے جب صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین کے خلاف تجارتی جنگ شروع کر دی تھی۔
کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے میں جب بیجنگ کی مجرمانہ غفلت کی بات آتی ہے تو ٹرمپ کا لہجہ مسلسل تبدیل ہوتا رہا ہے کبھی وہ صدر شی جِن پنگ کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی وبا کو چینی وائرس قرار دے کر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اب صدر ٹرمپ نے شدید انتخابی مؤقف اختیار کر لیا اور یہ وعدے کر رہے ہیں کہ وہ چین سے نقصان پورا کروائیں گے۔
انتظامیہ اور متعدد قانون سازوں کے اس جارحانہ بیانیے میں اضافے کی وجہ چین کا کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں شفاف رویہ نہ اختیار کرنا ہے۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو اس تنقید میں آگے آگے ہیں۔ وہ اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی تنقید زیادہ تر اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ کورونا وائرس کے سامنے آتے ہی بیجنگ اسے روکنے میں ناکام رہا اور اس کے علاوہ وہ چین کی لیباٹریوں کے محفوظ ہونے پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
چین ان سب الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں ایشیائی امور کے مشیر مائیکل گرین کا کہنا ہے چین کے رویے پر تمام سیاسی پارٹیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی نیشنل سکیورٹی ٹیم کے اراکین چین سے تعلقات کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ چین کو اگر کوئی نقصان نہیں ہوتا تو فائدہ بھی نہ ہونے پائے اور موجودہ صورت حال میں وہ چین کو کوئی فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔
مائیکل گرین کا کہنا ہے کہ چین کے صدر کی حکمت عملی اپنے ماضی کے چینی صدور کے مقابلے میں بہت جارحانہ ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے چین کی طرف سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کا ذکر بھی کیا جس میں اس وائرس کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ امریکی فوج نے پھیلایا ہے۔
مسٹر گرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے دفتر سنبھالنے سے پہلے بیجنگ میں دو درجن سے زیادہ امریکی اور چینی ماہرین پر مشتمل سٹاف بیماریوں پر کنٹرول اور ان سے بچاؤ کے مرکز میں ان معاملات پر کام کر رہے تھے۔
جب یہ بحران پیدا ہوا تو وہاں تین سے چار ماہرین تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے دونوں حکومتیں ذمہ دار ہیں۔
نیشنل سکیورٹی سے متعلق ماہرین کے مقابلے میں مسٹر ٹرمپ کے قریبی حلقے ’نیویارک گلوبلسٹ‘ یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ امریکہ کو کاروبار اور تجارت کے لیے چین کی ضرورت ہے۔
بیجنگ میں سابق صدر براک اوباما کے دور میں سفیر رہنے والے گیری لوکی جو چینی نژاد امریکی ہیں کا کہنا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہت ناہمواری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی اشتعال انگیزی ہو گی لیکن معاشی محاذ پر وسیع تعاون کی بھی تلاش ہو گی۔۔۔ کیونکہ بہت سے امریکی کسان پیداوار کے لیے چین کے خریدار ہیں۔
جیسا کہ الیکشن قریب ہیں صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مختلف رائے رکھنے والے مشیروں میں سے سخت گیر خیالات رکھنے والوں کی زیادہ سنیں گے بہ نسبت امن پسندوں کے۔
بہت سے قانون سازوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے اطلاعات کو چھپانے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی وجہ سے قانون متعارف کروائے ہیں یا پھر ایسے خیالات پیش کیے ہیں جن کے ذریعے بیجنگ کو سزا دی جا سکے۔
امریکی ریاست میسوری اور میسیسیپی نے ہرجانے کے مقدمے کی صورت میں غیر معمولی قدم اٹھایا ہے۔
سینیٹر ٹوم کاٹن چین پر الزام لگانے میں انتہا پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت نے جان بوجھ کر وائرس کو اپنی سرحدوں سے باہر نکلنے کا موقع دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ معاشی طور تنزلی کا شکار ہو رہے تھے تو انھوں نے دنیا کو بھی خوشحالی میں نہیں رہنے دیا۔
لیکن سپلائی لائنز کو امریکہ واپس لایا جانا اتنا آسان نہیں کیونکہ اس سے دونوں جانب کشیدگی بڑھے گی وہ بھی ان دنوں میں جب وبا کے اس دور میں امریکہ کا انحصار چینی ادویات اور طبّی آلات پر ہے۔
اور چین کے خلاف بیان بازی سے پہلے سے موجود نسل پرستی کے ماحول کو مزید ہوا ملے گی۔ اس کی وجہ سے امریکہ میں موجود ایشیائی لوگوں پر حملے بڑھیں گے۔
گیری لوک کہتے ہیں کہ میں چینی امریکی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ چین کا حکومتی اہلکار ہوں۔
ٹرمپ کی اشتہاری مہم میں غیر متوقع طور پر وہ دکھائی دے رہے ہیں اور ان کے ذریعے جو بائیڈن پر تنقید کی گئی۔
مسٹر بائیڈن کی ٹیم پر نسل پرستانہ گفتگو کو چیلنج کرنے کے بجائے ’آؤٹ ٹرمپنگ آؤٹ‘ کہنے پر بھی تنقید کی گئی۔
دونوں مہمات میں نسل پرستی کو مسترد کیا گیا۔ لیکن اب انتخابات کے درمیان میں چین کو گھسیٹا جا رہا ہے وہ بھی اس وقت جب ووٹر ناراض ہیں اور انھیں معاشی پریشانیاں لاحق ہیں۔
نومبر تک ووٹروں کی ناراضگی مزید بڑھ چکی ہو گی اور اورہ غربت کی دلدل میں مزید دھنس چکے ہوں گے۔ ایسے وقت میں ان کے ووٹ بتائیں گے کہ وہ کس کو الزام دیتے ہیں۔