شفقنا اردو: سپین میں مقیم کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے تین پاکستانیوں کی میتیں لاہور میں ان کے ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ سول ایوی ایشن کے ترجمان عبدالستار کھوکھر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک روز پہلے پاکستان کی طرف سے سپین کے شہر بارسلونا میں تین پاکستانیوں کی ہلاکت کے بعد اُن کی لاشیں ملک واپس لانے کی اجازت دی گئی تھی۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اب بیرونِ ملک پاکستانیوں کو کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی میتیں واپس پاکستان لانے کی اجازت مل گئی ہے۔
سپین سے جن تین پاکستانیوں کی لاشیں واپس لائی گئی ہیں ان میں سے ایک کا نام اقبال حسن تھا۔ ان کے بھانجے محمد وقاص نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ماموں بارسلونا میں گھروں کو کرائے پر دینے کے کاروبار سے منسلک تھے۔
وقاص نے بتایا کہ اُن کے ماموں کی میت پاکستان لانے کے لیے خاندان کو تقریباً ڈھائی ماہ تک انتظار کرنا پڑا۔
وقاص کے مطابق ان کے ماموں کو کئی دنوں سے نزلہ اور زکام تھا جس میں شدت آگئی اور اس کے چند دنوں کے بعد اُن کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ہسپتال منتقل ہونے کے ایک ہفتہ بعد 22 مارچ کو اقبال حسن کا انتقال ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا ’ہلاکت کے کئی دنوں کے بعد تک لاش وہیں ہسپتال میں رہی جس کے بعد حکومت اور ہسپتالوں کے درمیان بات چیت کے بعد لاش کو پاکستان لانے کی اجازت ملی۔‘
وقاص نے کہا کہ پرواز لاہور آنے پر وہ اور اُن کا خاندان والے ائیرپورٹ گئے تھے۔ جبکہ بارسلونا سے میت کے ساتھ اُن کے ورثہ نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا ’ہمارا خاندان زیادہ تر مختلف ممالک میں مقیم ہے۔ لیکن اس صورتحال میں ہماری کوشش یہی تھی کہ احتیاط برتی جائے۔ اسی لیے کسی کو بھی ساتھ نہیں بھیجا گیا۔‘
بیرون ملک سے میتیں واپس لانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
واضح رہے کہ اس وقت ہر ملک اپنے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے قوانین بنا رہا ہے، جن میں سے بیشتر ممالک ایسے ہیں جہاں اب تک میتیں لانے یا وہاں سے لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
کچھ روز پہلے تک پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا تھا جو کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی میتیں وطن واپس لانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
لیکن ایک روز پہلے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی میٹنگ میں ان لاشوں کو وطن واپس لانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور پاکستان میں شعبہ ہوا بازی کے نگراں ادارے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے میتیں پاکستان لانے سے متعلق قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں۔
اس وقت دو قسم کی میتیں ملک واپس لائی جا رہی ہیں۔ ایک وہ جن کی ہلاکت کووڈ-19 سے ہوئی اور دوسری وہ جو بیرون ملک کسی دوسری بیماری یا حادثے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں میتیں ان ریلیف پروازوں میں واپس لائی جارہی ہیں جن میں بیرونِ ملک پھنسے پاکستانی واپس آرہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تاحال یہ میتیں پروازوں کے کارگو ہولڈ میں لائی جارہی ہیں۔ ’تاحال ہمارے پاس خاص کارگو نہیں ہیں، جس میں میتوں کو واپس لایا جائے۔ کارگو ہولڈ مسافروں کے کیبن سے بالکل علیحدہ ہوتے ہیں۔ اور یہاں رکھی جانے والی میتیں مکمل طور پر سیل اور سینیٹائزڈ ہوتی ہیں۔‘
پرواز میں عملے کی تعداد بالکل کم رکھنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جبکہ عملے کو حفاظتی سوٹ، ماسک اور دستانے پہننا لازمی ہے۔
سی اے اے کے میتوں کو ملک واپس لانے کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس وقت پروازوں پر میتیں تین طریقوں سے لائی جا سکتی ہیں جو ہر ملک کے لحاظ سے مختلف ہے۔ یعنی بعض ممالک ان طریقوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض نہیں۔
ایک طریقہ میت میں سے خون نکال کر اس کی جگہ فارمل ڈی ہاییڈ کیمیکل بھر کر ایک سیل شدہ تابوت میں لایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ میت کو جلا کر باقیات کو راکھ کی شکل میں کسی مرتبان میں لایا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ کار زیادہ تر عمل میں نہیں لایا جاتا۔
اور تیسرا میت کو تمام تدابیر کے تحت پیڈنگ کر کے واپس لایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ان تمام تر قواعد پر زیادہ تر لوگ اپنے مذہب اور ملکی قوانین کے تحت عمل کرتے ہیں۔
پاکستان میں شعبہ ہوا بازی کے نگراں ادارے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے لواحقین سے متعلق بھی قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان عبدالستار کھوکھر نے بتایا کہ جن پروازوں پر کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین آئیں گے اُن کو وطن واپس آنے کے ایک روز کے اندر ہی قرنطینہ میں جانا ضروری ہوگا۔
میت کو اٹھانے یا رکھنے سے پہلے اور بعد میں تمام تر ایس او پیز کا اطلاق لازمی ہے جن میں ہاتھ دھونا، سینیٹائزر لگانا اور انتہائی صورت میں نہانا شامل ہے۔