شفقنا اردو: مریض سے ذاتی انسیت اور ان کے گھر والوں کے اعتبار اور یقین نے مجھے مجبور کر دیا کر میں بطور صحافی اپنا تعارف کروا کر اعلیٰ حکام کو بھی کالز کروں تاکہ انھیں کسی سرکاری ہسپتال میں ہی جگہ اور وینٹیلیٹر مل سکے
پاکستان میں اس وقت کورونا کے مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں بستروں، ادویات، طبی آلات اور وینٹیلیٹر کا حصول دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب مجھے خود اپنے ایک عزیز کو ہسپتال میں داخل کروانے کے لیے بہت سے اعلیٰ حکام سے التجائیں کرنی پڑیں۔
جس عزیز کے لیے مجھے بیڈ کی تلاش تھی وہ رشتے میں تو میرے خالو تھے لیکن میرے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ گذشتہ جمعرات کی رات مجھے ان کی بیٹی کی کال موصول ہوئی کہ انھیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، بھائی انھیں کئی پرائیوٹ ہسپتالوں میں لے کر گیا لیکن وہاں کورونا کے مریضوں کے لیے مزید جگہ نہیں ہے۔
اس نے مجھے کہا ’پلیز تم کچھ کرو‘ یہ جملہ سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ شاید اسے یہ یقین ہے کہ اس وقت صرف میں ہی انھیں ہسپتال میں داخل کروا سکتی ہوں۔
میں نے حکومت کے دیے ہوئے ہیلپ لائن نمبروں پر کالز ملائیں تو وہاں سے معلوم ہوا کہ کس سرکاری ہسپتال میں جگہ ہے اور کس میں نہیں۔ تاہم جب میں ان ہسپتالوں میں موجود اپنے جاننے والے ڈاکٹروں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ان ہسپتالوں میں بھی جگہ نہیں ہے۔
اس دوران مریض کی حالت زیادہ بگڑنے پر ہم نے ریسکیو 1122 کو کال کی تاکہ انھیں کم از کم آکسیجن لگائی جا سکے۔ انھیں ایمبولینس میں جناح ہسپتال لے آئے لیکن وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی جگہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ان کی آکسیجن کا لیول 75 فیصد ہے اور مریض کو ذیابیطس بھی ہے اس لیے انھیں کسی بھی وقت وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جس کے بعد میں نے کئی صحافیوں، ہسپتالوں کی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسروں کو کالز ملا کر معلوم کرنا شروع کیا کہ کس ہسپتال میں جگہ اور وینٹیلیٹر دستیاب ہے۔
مریض سے ذاتی انسیت اور ان کے گھر والوں کے اعتبار اور یقین نے مجھے مجبور کر دیا کر میں بطور صحافی اپنا تعارف کروا کر اعلیٰ حکام کو بھی کالز کروں تاکہ انھیں کسی سرکاری ہسپتال میں ہی جگہ اور وینٹیلیٹر مل سکے۔
کئی گھنٹے گزر گئے لیکن کہیں سے امید نظر نہیں آئی۔
اس واقعے سے قبل مجھے اتنا تو معلوم تھا کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے سے شہر کے ہسپتالوں میں جگہ کم ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا صحت کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور ہم جس ہسپتال میں جائیں وہاں ہی بستر دستیاب نہیں ہوگا۔
محکمہ صحت کے ایک افسر نے مجھے کہا آپ مریض میو ہسپتال لے جائیں وہاں بیڈ بھی مل جائے گا اور وینٹیلیٹر بھی موجود ہے۔ آپ وہاں جائیں اور ہسپتال کے سی او کو جا کر میرا حوالہ دیں۔ دل کو کچھ اطمینان ہوا کہ اب علاج ہو سکے گا۔ میں نے ان کے بیٹے سے کہا آپ انھیں فوراً میو ہسپتال لے کر پہنچیں میری بات ہو گئی ہے۔
اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ ‘آپی اب یہ ایمبولینس والا کہہ رہا ہے کہ نئی ایمبولینس منگوائیں کیونکہ میری کال صرف جناح ہسپتال تک کی تھی‘۔
اسی کال کے دوران میں نے اسے ایمبولینس کے عملے کو یہ کہتے سنا کہ ’بھائی پلیز لے جائیں میو ہسپتال، مریض کی حالت بہت خراب ہے میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ کہو تو پاؤں بھی پڑ جاؤں گا۔ آپ بےشک پیسے زیادہ لے لینا۔‘ لیکن وہ نہیں مانے۔
مجھے یہ بات سن کر بہت تکلیف ہوئی اور سمجھ نہیں آئی کہ کس سے یہ سوال کروں کہ کیا اس وائرس نے ہمارے نظام کو اتنا بوسیدہ کر دیا ہے کہ اس لاچاری کے عالم میں بھی ہم کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہو رہے ہیں۔
ہم نے دوسری ایمبولینس بلائی جس میں ہم مریض کو میو ہسپتال لے کر پہنچے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں موجود ڈی ایم ایس سے بات کرنی پڑی کہ برائے مہربانی مریض کو داخل کر لیں۔
پھر اس کے بعد میں میو ہسپتال لاہور سی او سے درخواست کی کہ ’سر مریض کو داخل کر کے ان کا جلد از جلد علاج شروع کروا دیں کیونکہ ان کی حالت کافی خراب ہے۔‘ جس کے بعد انھوں نے مریض کو کورونا کے مشتبہ وارڈ میں داخل کر لیا جہاں لواحقین کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اگلے تین گھنٹے اندر کیا ہوتا رہا ہم نہیں جانتے تھے۔
اسی دوران ایک خاتون وارڈ کے پاس سے زارو قطار روتی ہوئی آئیں اور کہنے لگی کہ ‘کیوں لے آئے اپنے مریض کو یہاں، یہ تو سب کو مار کر بھیج رہے ہیں۔ میرے گھر کے تین لوگ مر چکے ہیں کیونکہ یہاں کوئی سہولت نہیں ہے اور ہم تو رل گئے ہیں‘۔ یہ سن کر ہم مزید پریشان ہو گئے اور دل کو تسلی دیتے رہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہم نے وہاں موجود ڈاکٹر سے بار بار رابطہ کیا جس پر ہمیں بتایا گیا کہ مریض کو آکسیجن لگا دی گئی ہے۔ وارڈ کے اندر سے ہمیں ایک سادہ پرچی پر ایکٹمرا کا انجیکشن لکھ کر دے دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی گئی جو ہم نے فوراً کروا لیے۔
اس کے بعد مجھ سمیت ہم سب گھر والے ساری رات ایکٹمرا کا انجیکشن، پلازما اور علاج میں استعمال ہونے والی ادویات ڈھونڈنے میں لگے رہے جو ہمیں نہیں ملیں۔
صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ مریض کی طبیعت ٹھیک ہو رہی ہے اور ان کا آکسیجن لیول بھی 94 پر آ گیا ہے۔ تھوڑی تسلی ہوئی! اس دوران میں مسلسل ڈاکٹرز اور میو ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطے میں تھی۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کے سینے کا ایکسرے کروانا ہے لیکن میو ہسپتال کی ایکسرے مشین اس وقت خراب تھی۔ ڈی ایم ایس نے کہا تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گی پھر ڈاکٹر آئیں گے اور مریض کو دیکھیں گے۔
کچھ ہی دیر میں پتا چلا کہ میرے خالو کی طبیعت دوبارہ خراب ہو گئی ہے۔ ہم پریشانی میں دوبارہ ڈی ایم ایس کے کمرے کی طرف گئے اور انھیں بتایا کہ مریض کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ برائے مہربانی انھیں دیکھ لیں کیونکہ سینیئر ڈاکٹر تو پتا نہیں کب آئیں گے۔
وہاں موجود ڈی ایم ایس نے کہا کہ ہم تھوڑی دیر میں انھیں آئی سی یو میں شفٹ کر دیں گے۔ کچھ دیر بعد کے بعد ان کا بیٹا ان کی حالت کے بارے میں معلوم کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ مریض اپنے بیڈ پر موجود نہیں ہے۔
پریشانی کے عالم میں ہم سب ہی ادھر ادھر بھاگتے رہے کہ شاید مریض کو آئی سی یو میں شفٹ کر دیا ہو لیکن وہ وہاں بھی موجود نہیں تھے۔
اسی دوران تقریباً دو گھنٹے کا وقت گزر گیا۔ انتظامیہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ آپ نے مریض کا نام ٹھیک نہیں لکھوایا اس لیے وہ وارڈ میں نہیں ہے اور انھیں آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔
ہمیں اس بات پر تسلی نہ ہوئی اور ہم خود انھیں تلاش کرتے رہے تو پتا چلا کہ وہ دو گھنٹے قبل اکیلے باتھ روم جانے پر مجبور ہوئے تھے کیونکہ وارڈ میں ایسا عملہ موجود نہیں تھا جو شدید بیمار مریض کو باتھ روم تک لے جاتا۔
آکسیجن کی کمی کے باعث وہ وہاں گر گئے اور کافی دیر تک وہیں پڑے رہے اور اس کے باعث ان کی موت ہو گئی۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو میرے عزیز کے ساتھ پیش آیا۔ اس سے قبل بھی بہت سے مریضوں کے لواحقین کی جانب سے ان کے مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ملنے کی شکایات سامنے آچکی ہیں۔
میں نے ہسپتال عملے کی اس غفلت کے بارے میں بتانے کے لیے میو ہسپتال کے سی ای او کو فون کیا اور کہا کہ برائے مہربانی دیکھیں کیا ہو رہا ہے کیونکہ ہمارا مریض دو گھنٹوں بعد باتھ روم سے ملا ہے۔
جس پر وہ بولے کہ ‘اگر کوئی مریض کہے کہ میں نے باتھ روم جانا ہے تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔ آپ لوگ فورا ہسپتال پر الزام لگا دیتے ہیں۔ ہم لوگ روز اپنی جان داؤ پر لگا کر آتے ہیں اور علاج کرتے ہیں۔‘
جس پر میں نے انھیں کہا ’سر! اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگی ہے تو میں اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں اور میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ہر شخص کی عزت کرتی ہوں۔ میرا بس یہی سوال ہے کہ کیا وارڈ میں کوئی بھی ایسا عملہ نہیں تھا جو انھیں باتھ روم لے جاتا یا ایک ایسا مریض جو شدید بیمار ہے، کیا اسے اکیلے باتھ روم جانے کی اجازت ہوتی ہے؟‘
مجھے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔ تاہم انھوں نے میرے عزیز کی موت پر مجھے تعزیت کا ایک میسج ضرور بھیجا۔ اس وقت میں نے ایسی بے بسی محسوس کی جو آج تک زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی ہو گی۔
اس واقعے کو گزرے ایک ہفتہ ہو گیا ہے لیکن ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے یہ نہ سوچا ہو کہ کتنی امید اور یقین سے ان کے گھر والوں نے مجھے کہا تھا کہ ان کا علاج کروا دو تاکہ وہ جلدی ٹھیک ہو کر گھر آسکیں۔ اپنا گھر سنبھال سکیں، اپنی نوکری پر واپس جا سکیں، اپنے بچوں کو پڑھا سکیں اور ان کے خوابوں کو پورا کر سکیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
تاہم ان کی بیٹی آج بھی مجھے روزانہ اپنے والد کی تصویر بھیج کر پوچھتی ہے کہ ‘اگر پاپا کی اچھی دیکھ بھال ہوتی تو وہ زندہ ہوتے؟ اگر وہ باتھ روم نہ جاتے تو وہ بچ سکتے تھے نا؟ اگر کوئی وقت پر انھیں وہاں سے اٹھا لیتا تو ان کی موت نہ ہوتی؟’
ان تمام سوالوں کے جواب میرے پاس اس بچی کو دینے کے لیے صرف تسلی ہے۔ لیکن میں خود شاید اس احساس جرم سے کبھی باہر نہ آسکوں کہ ‘کاش میں انھیں میو ہسپتال نہ بھیجتی۔‘