صدرِ پاکستان، وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھی تعزیت کی، متعدد لوگوں نے کالمز لکھے، وسعت اللہ خان نے تو قلم ہی توڑ دیا، اس کے بعد مزید لکھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی، چنانچہ میں اس پر بات نہیں کروں گا کہ مر حوم کے اباواجداد کہاں کے تھے، انہوں نے کہاں تعلیم حاصل کی اور اُن کے ہاں کتنی اولادیں ہوئیں۔ یعنی میں شخص کے بجائے شخصیت پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہوں۔
وہ جس خاندان میں پیدا ہوئے، انہوں نے ثابت کیا کہ وہ سپوت ہیں، اُن کی آئندہ نسلیں اپنا تعارف اُن کی نسبت سے کرایا کریں گی، انہوں نے جہاں تعلیم حاصل کی وہاں سُستی اور کاہلی کا مظاہرہ نہیں کیا، وہ اپنی محنت شاقہ کی بدولت علمی جواہر سے دامن بھر کروطن لوٹے، وہ منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو اُنہوں نے علامہ رشید ترابی، علامہ سید علی نقی نقن، علامہ نصیر اجتہادی، علامہ مفتی جعفر حسین اور علامہ عرفان حیدر عابدی کے بعد اس منبر کی رونق میں مزید اضافہ کردیا، اُن کی اولاد اُن کیلئے کس قدر باقیاتُ الصالحات ثابت ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن باقیاتُ الصالحات کے طور پر اُنہوں نے عقائدِ اسلامی کی تبیین، فہمِ قرآن و حدیث اور سیرت نبی اکرمﷺ و معرفتِ اہلبیت کے جو در وا کئے اُن کا اجر ہمیشہ اُنہیں ملتا رہے گا۔
اُن کی قادرالکلامی، اندازِ بیان، منطقی و علمی دلائل، اور اسلامی رواداری کا معترف سارا جہان ہے۔اُن کی مجالس کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ اپنے عقائد سے مربوط دلائل کو قرآن ، مشترکہ احادیث اور مسلماتِ تاریخ میں سے پیش کرتے تھے۔ اُنہوں نے منبر سے مناظرے کو منفرد علمی قالب عطا کیا۔اُن کا یہ علمی قالب اتنا دلکش تھا کہ دیگر مکاتب کے علما اُن کی مجالس میں کھچے چلے آتے تھے۔
ہمارے ہاں قدردانی کا رواج نہیں، اس ناقدری کے مارے ہوئے دور میں اُنہوں نے اپنے علم کا لوہا منوایا، اور ثابت کیا کہ دنیا علم کی تشنہ ہے۔ اگر آپ کے پاس علم ہے تو آج بھی آپ دلوں پر حکومت کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں جہاں صرف طہارت و نجاست اور حلال و حرام کے احکام کو ہی علم ِدین کہاجاتا ہے اور قرآن مجید سے قُل خوانی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرانے کا کام لیا جاتا ہے، اُس معاشرے میں علامہ نے ایمان، انسان، قرآن اور خدا کے حوالے سے ان گنت موضوعات پر سیر حاصل علمی دروس دئیے ہیں۔
علامہ کے اس عروج میں بلاشبہ اُن کی محنت اور ریاضت کا عمل دخل ہے، لیکن ہمارے جیسے طالب علموں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خود قرآن مجید کی برکات میں سے ایک برکت یہ ہے کہ جو آدمی بھی قرآن مجید سے لولگاتا ہے ، یہ قرآن اُسے عزت و عظمت اور رفعت عطا کرتا ہے۔ علامہ کی زندگی سے ایک نکتہ جو ہم سب کو سمجھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے توسل کا بہترین ذریعہ قرآن فہمی کی جدوجہد ہے۔
یہاں پر اُس اقلیت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جو قومیات کا حل بھی منبر و محراب سے چاہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس اقلیت کا امربالمعروف، نہی عن المنکر اور منبر سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں جب بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی خاطر منبر کی تاریخ بیان ہوتو اُن لوگوں کا بھی ذکر ہو جنہوں نے زیرِ منبررہ کر لوگوں کو منبر سے دین کی آفاقی حیثیت ، قومیات اور سیاسی مسائل کی خاطرآواز بلند کرنے کا شعور دیا ہے۔آج جب منبر کو تحریفِ عقائد اور تبلیغِ خرافات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اور لوگ واہ واہ کرتے ہیں تو زیرِ منبر بیٹھنے والوں کی سطحِ فکری پر رونا آتا ہے۔
وسعت اللہ خان کے بقول علامہ طالب جوہری کے بعد خلا پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ خلا بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں، میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اب خلا برسرِ منبر بھی ہے اور زیرِ منبر بھی۔