شفقنا اردو: جارج فلائیڈ کی بہیمانہ ہلاکت کے بعد مغربی ممالک میں نہ صرف مسلمانوں میںموجود سیاہ فامی کے موضوع پر ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے بلکہ سیاہ فام مسلمانوں اور سیاہ اسلام پر آن لائن مباحث کو بھی تشہیر ملی ہے۔
اگرچہ میں سیاہ فام مسلمانوں سے متعلق لکھی گئی دو کتب کا مصنف بھی ہوںتاہم میں نے یہ اصطلاح ایک خاص مقصد کے لیے استعمالی کی ہے تا کہ میںاپنی بات کی درست طریقے سے وضاحت کر سکوں۔ تاہم میںعصر حاضر میں سیاہ فام مسلمانوں جیسی کسی اصطلاح کی تائید نہیںکرتا اور نہ سیاہ فام اسلام جسی کسی چیز کے وجود کا قائل ہوں۔ میںاس ضمن میںتاریخی حوالہ جات پیش کروں گا کہ ہمیںسیاہ فام لوگوں کے بارے میں جو کہ مسلمان ہیں اور مختلف ماضی کے حامل ہیں اپنے نظریات کو واضح کرنے کی ضرورت کیوں ہے ؟
ہم جانتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قبل آنے والے انبیا اور بزرگ مسلمان تھے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان میںسے بعض ظاہر شکل و صورت میںسیاہ فام تھے۔مثال کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام گندمی رنگت اور گھنگریالے بالوں کے حامل تھے۔ حکیم لقمان رحمتہ اللہ علیہ بھی حبشہ سے تعلق رکھتے تھے اور سیاہ فام تھے۔
تاہم ہم مسلمانوں کو رنگ و نسل سے قطع نظر صرف اس نظریے سے دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہیں۔ سیاہ فام چاہے حبشہ کے تھے، نیوبیا سے تعلق رکھتے تھے یا عرب تھے درحقیت ایمان لانے والے اولین لوگوں میں سے تھے۔
1400 سال قبل عرب میںسیاہ فام لوگوںکو اس طرح نسلیت پسندی کا سامنا نہیںتھا جیسا موجودہ دور میںیورپ میںسیاہ فاموں کو سامنا ہے یا جس طرح موجودہ دور میںان کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرحبراعظم افریقہ میںسیاہ فام ہونے کا مطلب وہ نہیںجو مغرب میںلیا جاتا ہے۔
اس تناظرمیںدیکھا جائے تو اسلامی تاریخ سیاہ فاموں کی تاریخ سے الگ نہیں ہے اور نہ ہی افریقی مذاہب میںاسلام کوئی الگ چیز ہے۔ اسلام لانے والے ابتدائی لوگوں میںعبداللہ بن مسعور رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے جو موجودہ دور کی افریقی سیاہ فاموں کی تعریف پر مکمل پورا اترتے ہیں۔ انہوںنے یمن اور عمان میںرہنے والوں سے پہلے اسلام قبول کیا اور افریقی مسلمانوںنے اسلامی تہذیب کی ںہ صرف بنیاد رکھنے بلکہ اس کو پروان چڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
اس لیے بعض سیاہ فام مستشرقین کی جانب سے یہ مفروضہ کہ اسلام سیاہ فاموں کے خلاف ہے سراسر مضحکہ خیز ہے۔ اسلام ہرگز سیاہ فاموں سے الگ نہیں بلکہ وہ اسلام کا حصہ ہیںیہی وجہ ہے مجھے سیاہ فام اسلام کا لفظ بہت تکلیف دہ لگتا ہے۔
اسی طرح اسلام سیاہ فام لوگوں تک مختلف ذرائع سے پہنچا ۔ زنجبار میں اسلام کی ترویج حبشہ میں اسلام کی ترویج سے مختلف ہے۔ جبکہ مشرقی افریقہ میںاسلام کی اشاعت اور مغربی افریقہ میںاسلام کی اشاعت میں بہت معمولی یکسانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی افریقہ میں عرب سے بالکل مختلف اسلامی تہذیب نے جنم لیا جیسا کہ سلطنت مالی اور سوکوٹو خلافت کا قیام۔ جب کہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سب صحارا خطے کے مسلمان تاریخی اعتبار سے خود کوقبائلی پس منظر کہ سمجھتے ہیں۔
امریکی مسلمانوں کے لیے سیاہ فام مسلمانوں کی اصطلاح استعمال کرنا بہت سارے مسائل کی جڑہے۔ بنیادی ور پر یہ اصطلاح ایک امریکی مفکر ایرک لنکن نے 1961 میں سیاہ فام مسلمانوں پر لکھی جانی کتاب میں متعارف کرائی۔ اس اصطلاح کا مخصوص مطلب تھا جس کا تعلق نیشن آف اسلام نامی تحریک سے تھا نہ کہ افریقی امریکی مسلمانوں کے لیے یہ اصطلاح استعمال ہوئی۔
آج تک امریکہ میںبسنے والے میرے سیاہ فام امریکی اجداد سیاہ فام مسلمانوںسے مراد نیشن آف اسلام ہی لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میںاپنی پہچان سیاہ فام مسلمان کے طور پر کرانے سے کیوںکتراتا ہوں۔ اس زبان کے استعمال میں ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اس طرح کی اصطلاحات رنگ میں یکسانیت یا بالوںکی ساخت کی وجہ سے بہت سارے مختلف گروہوں کو ایک ہی گروپ شمار کرتا ہے جو کسی دور پر درست نہیں
مثال کے طور پر افریقی امریکی اور امریکہ میں پناہ لینے والی صومالی یا امریکہ میںاعلی تعلیم اور پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے آنے والے نائجرین ہر گز یکساں نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے مابین چند چیزوں میںمشابہت ہو سکتی ہے تاہم امریکہ میں ہوںیا اپنی اپنی مسلم کمیونٹی میں ان میںنمایاں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تمام حقائق ان غلام افریقیوں کی نسل نو کے لیے درست ہیں جن کی چوتھی نسل مشرف بہ اسلام ہوئی تھی ان کے نام، زبان ، قبائلی حسب ونسب سب کچھ ختم کر دیا گیا تھا اور صرف ایک کلمے میںباندھ دیے گئے تھے۔
امریکی افریقی، مغربی افریقی، مشرقی افریقی اور سیاہ فام عرب ایک طرح سے سب سیاہ فام ہیں لیکن ایک جیسے سیاہ فام نہیں ہیں شاید چند نسلوں کے بعد مسلمان معاشروں میںسیاہ فام معاشرت کے احتلاط اور آپس میں شادیوں سے یہ تفریق بھی ختم ہو جائے۔
موجودہ دور میںجہاں سیاہ فاموں سے نفرت کے خلاف بیداری شعور اپنے عروج پر ہے اور مسلمان معاشروںمیںسیاہ فاموں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور یگانگت دکھائی جارہی ہے ہمیں ایسے مباحث میں رنگ و نسل کی تفریق کے بارے میں بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاہ فاموں کے ساتھ نام نہاد یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں ان استعارات کے خلاف بھی مزاحمت کرنی چاہیے جو دنیا سیاہ فاموں کے بارے میں بنا چکی ہے۔ اس معاملے میںہمیںاپنے خیالات کو صاف کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تبھی ہم اس افراتفری کے دور میںلوگوں کی درست سمت میںرہنمائی کر سکتے ہیں۔
شفقنا اردو