شفقنا اردو: جون میںفلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے ایک بیان میںکہا ہے کہ اگر اسرائیل مغربی کنارے کا 30 فیصد حصہ ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ الگ فلسطینی ریاست کا اعلان کریں گے۔ اشتیہ کے مطابق یہ ان کی بقا کو خطرہ ہے۔
تاہم ” بقا کوخطرہ” جیسی اصطلاحات کے استعمال میںچند ایک خدشات بھی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کو اس طرح کی اصطلاح اسرائیل کے لیے استعمال نہیںکرنی چاہیے ۔ الحاق کو بقا کا خطرہ اس وقت تک قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک اسرائیل کو نوآبادیاتی ریاست تسلیم نہ کیا جائے جو بذات خود اسرائیل کے وجود کے لیے خطرناک ہے۔
تمام بین الاقوامی قوانین الحاق کی سختی سے نفی کرتے ہیںاور اقوام متحدہ نوآبادیات کے خاتمے کے لیے کوشاںہے۔ بلاشبہ اسرائیل کو نوآبادیات کی متعین کردہ حدود میں شامل نہیںکیا گیا جس کی وجہ فلسطین کو اسرائیل کی نوآبادیاتی ریاست بنانے کے لیے بین الاقوامی دنیا کی سازش اور اسرائیلی سرمایہ کاری ہے۔ بہر کیف بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی تجویز اور سفارتی کاوشیں واضح ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پیش کردہ صدی کی ڈیل کے بظاہر مخالفت کرتے ہوئے اقوام متحدہ ایک متروک فریم ورک کی ترویج کی بات کرتی ہے اور اس صورتحال میںفلسطینی اتھارٹی بین الاقوامی اتفاق رائے کے مطابق اپنا رستہ متعین کرتی ہے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ ہے جس کے بغیر اس کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔
اشتیہ نے کبھی یہ واضح نہیںکیا کہ فلسطین کو الگ ریاست قرار ینے سے فلسطین کو سیاسی طور پر کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ درحقیت اسرائیل کی جانب سے ایک دہائی سے جاری اسرائیلی آباد کاری اور نوآبادیاتی پھیلاؤ کو رد کرنا فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ایک کمزور اور بعد از وقت جواب ہے جو کہ محض ایک دکھاوا ہے۔
اگر فلسطین کی تاریخپر نظر دوڑائی جائے تو فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مسلسل 1967 کے بارڈر کے مطابق بات چیت نے ان فلسطینیوں کے دلوں میں مستقل پھوٹ ڈالی ہے جو یہوی نو آبادیات اور فلسطینی زمینوں پر قبضے کو 1880 کی حد کے مطابق واپس چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری 1948 کے یوم النکبہ کو ہمیشہ سے نظر انداز کرتی رہی ہے جس کے نتیجے میں 7500 فلسطینیوں کو ان کے شہروں اور گاوں سے بے دخل کر کے فلسطین میںمستل نو آبادیات اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی۔
دو ریاستی معاہدے کو تسلیم کر کے جو درحقیقت کبھی وجود میںآںا ہی نہیں تھا، فلسطینی اتھارٹی نے فلسطینیوںکے ساتھ حقیقتٌا غداری کی۔ نکبہ ہی وہ تاریخی حوالہ ہے جس پر فلسطینی ریاست کے حقیقی وجود کا مطالبہ بنتا ہے۔
دو ریاستی فریم ورک کو تسلیم کر کے فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف فلسطینیوں کی تاریخ کومسخ کیا ہے بلکہ فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ بین الاقوامی برادری کی اس سیاسی سوچ کا مقابلہ کر سکیں جو ان پر مسلط کردی گئی ہے۔
مزید برآں محمد اشتیہ کی فلسطین کو الگ ریاست بنانے کا غیر موثر بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ فلسطین اتھارٹی نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفط کے لیے اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے فلسطین کی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کیا۔
فلسطینی اتھارٹی نے حتی کہ فلسطینیوں کے اجتماعی تجبرے پر بھی قائم رہنے کی کوشش نہیںکی بلکہ اس کے برعکس رام اللہ میںفلسطینی قیادت نے بین الاقوامی برادری پر انحصار کیا کہ وہ فلسطینیوںاور فلسطین کی نمائندگی کرے پس اس طرح فلسطین کی تاریخکو مزید مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔
فلسطینی ایک طویل عرصے سے یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیںکہ فلسطینی اتھارٹی ان کے سیاسی نظریات اور ضروریات کی حقیقی نمائندہ نہیںہے ۔ الحاق کے معاملے میںامریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ فلسطینی عوام اور سیاسی قیادت کے مابین اختلاف کو منظر عام پر لایا ہے۔
اب فلسطینی اتھارٹی سیاسی تنہائی کا دعوی کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ اس مفروضے میںدرست بھی ہے کیونکہ اس کا وجود محض بین الاقوامی ایجنڈے کو شہ دینے کا ہے تاہم فلسطینی عوام کی سیاسی تنہائی بلاشبہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی سرزمین کو کھو کر فلسطینی عوام اب اپنے اندر صرف اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔