شفقنا اردو: حال ہی میںایک داخلی تنازعہ کی وجہ سے مولانا عبدالعزیزنے ای سیون میںواقع جامعہ فریدیہ پر اپنے ہمنواوں کے ہمراہ قبضہ کر لیا۔ اس مدرسے کے منتظم مولانا عبدالغفار، مولانا عبدالعزیز کے قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے تاہم اب ان میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نے 2000 کی دہائی میں مولانا عبدالغفار کو جامعہ فریدیہ کا منتظم مقرر کیا تھا تاہم مدرسے کے انتظامات ان کے ہاتھ سے مولانا عبدالغفار کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔
مولانا عبدالعزیز، ان کے اہل خانہ اور جامعہ حفصہ کے 200 طلبہ کچھ دن قبل جامعہ فریدیہ منتقل ہوگئے تھے۔
مولانا عبدالعزیز نے مولانا عبدالغفار اور اس کے ساتھیوں سے احاطہ خالی کرنے کو کہا تھا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا تھا اور دونوں نے جانے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم مولانا عبدالعزیز نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدرسے پر قبضہ کر لیا اور اس سارے معاملے میںانتظامیہ محض خاموش تماشائی بنی رہی۔ پولیس افسران کو موصول خفیہ معلومات کے مطابق اس مدرسے کے اندر کم از کم پانچ سب میشین گنیں اور 30 بور پستول بھی موجود ہیں۔ اس مدرسے میں فی الحال دونوں فریقوں کے مابین مسئلہ کھڑا ہوا ہے جن میں سے ہر ایک کا مالکانہ دعویٰ ہے اور وہ مکمل کنٹرول چاہتا ہے۔
اس تنازعہ میں ملا عبدالعزیز نے ایک بار پھر اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک بار پھر یہ سوال شدت سے سامنے آیا ہے کہ کیا ریاست و سیاست بدستور انتہا پسند اور آمادہ بہ فساد عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ کیا ریاست کے پاس مقامی انتظامیہ کے ذریعے عبدالعزیز جیسے لوگوں سے ’مذاکرات یا منت سماجت‘ کرکے معاملہ طے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے؟
اسی سال کے دوران اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے تصادم کے خوف میں مولانا عبدالعزیز کے ساتھ دوسرا معاہدہ کرنے کے بعد یہ سوال بھی فطری طور سے سامنے آیا ہےکہ کیا 2007 میں لال مسجد کو طاقت کا مرکز بنا کر فوج کے ساتھ دوبدو ہونے کا سانحہ بھلا دیا گیا ہے؟ کیا ایک بار پھر وہی حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ کسی مدرسے یا مسجد کا مولوی کسی بھی معاملہ پر حکومت کو چیلنج کرے گا اور حکومت اور اس کے نمائیندے ریاست کی رٹ نافذ کرنے اور قانون شکنی تو روکنے کی بجائے ’مصالحت‘ کے ذریعے تصادم سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ مولانا عبدالعزیز نے کبھی اپنے خیالات کو پوشیدہ نہیں رکھا۔ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے اور اپنے فرمان کے مطابق اسلام آباد کے معاملات چلانا چاہتے ہیں۔ طاقت کے مظاہرے کے لئے انہیں کسی عذر کی ضرورت ہوتی ہے۔ 2007 میں اسلام آباد میں ناجائز مساجد کو مسمار کرنے کی کارروائی کے علاوہ معاشرے میں ’اسلامی تعلیمات‘ کے مطابق سماج سدھار کی مہم کے نتیجے میں بلوے کی کیفیت پیدا کی گئی تھی۔
نوشتہ دیوار یہ پیغام ہے کہ جامعہ فریدیہ کا قبضہ ضمنی بات ہے اصل تنازعہ حکومت سے اپنی طاقت کو تسلیم کروانا ہے۔ مولانا عبدالعزیز کو یہ غیر معمولی طاقت کیسے حاصل ہوئی اور وہ عین اس وقت کیوں حکومت کو پسپا کرنے کے مشن پر گامزن ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تو ملک کا وزیر اعظم ایک ایسا شخص ہے جس کی مدینہ ریاست کا منشور انہی سنہرے اصولوں سے لکھا ہے جنہیں مولانا عبدالعزیز ملکی قانون و آئین سے بالادست قرار دیتے ہیں۔
ان اصولوں کو بیان کرنے کے لئے نام تو قرآن و سنت کا لیا جاتا ہے لیکن اس عنوان سے اپنی طاقت میں اضافہ مقصود ہوتا ہے۔ اسی لئے ملا عبدالعزیز اسلامی شریعت کا نام لیتے ہوئے حکومتی اتھارٹی کو چیلنج کرنا اسلامی شعار کے خلاف نہیں سمجھتے اور عمران خان مدینہ ریاست کا دعویدار ہونے کے باوجود دہشت گردی کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے اسامہ بن لادن کو قومی اسمبلی میں شہید قرار دینا غلط نہیں سمجھتے۔ دونوں کے قول و فعل میں اس حیرت انگیز مماثلت کے باوجود عبدالعزیز حکومت کو نیچا دکھانے کے مشن پر متعین ہے۔
دینی مدرسوں پر افراد یا خاندانوں کا قبضہ سیاسی پارٹیوں پر افراد یا خاندانوں کے قبضہ سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان مدارس کو بے لگام چھوڑنے کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے۔ اب بھی ایف اے ٹی ایف جیسے فورمز پر دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے پاکستان کو جوابدہی پر مجبور کیا جارہا ہے اور اس کا نام بدستور گرے لسٹ پر ہے جسے سفارتی منت سماجت کے ذریعے بلیک لسٹ پر جانے سے روکا جاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ اب قومی مفاد کے لئے نقصان کا سبب بننے والے دینی مدارس کے بارے میں شفاف حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اس میں پہلا قدم مدرسوں پر ذاتی یا خاندانی اجارہ داری یا حق ملکیت کے طریقہ کو ختم کرنا ہونا چاہئے تاکہ مولانا عبدالعزیز جیسے لوگ مدارس کو اپنی غنڈہ گردی مسلط کرنے کے لئے استعمال نہ کریں۔