شفقنا اردو: تحریک انصاف کی حکومت اپنی ناتجربہ کاری یا پھر بیوری کریسی کی رکاوٹوں کی وجہ سے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی بجائے آئے روز ایک نئے بحران میںدھکیل رہی ہے۔ چینی بحران جو بظاہر ختم نظر آتا ہے مگر ختم ہوا نہیںاور چینی کی فی کلو قیمت بلند ترین سطحیعنی 80 روپے تک پہنچ چکی ہے اگر آج چینی کی قیمت 80 روپے سے کم کی جائے تو چینی بھی ناپید ہو جائے گی۔ کچھ یہی حال پیٹرول کا تھا جب حکومت نے پیٹرول کی قیمت 74 روپے مقرر کی تو لوگوں کی پیٹرول ملنا بند ہوگیا اور پھر اس بحران کے خاتمے کے لیے حکومت نے تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ 25 روپے فی لٹر کر کے بالاخر اس بحران کا حل بھی ڈھونڈ لیا۔ اب ان بحرانوں کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ گندم کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے ۔
پاکستان میں سب سے زیادہ گندم اگانے والے صوبہ پنجاب میں قیمتوں کا یہ عالم ہے کہ گندم کی فی من قیمت 2 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے اور مارکیٹ ذرائع کا دعوی ہے کہ حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیئے تو آئندہ دس سے پندرہ روز کے دوران گندم کی قیمت 2200 روپے فی من سے بھی تجاوز کر سکتی ہے اور اسی تناسب سے بیس کلو آٹا تھیلا کی قیمت 1200 روپے سے بڑھ جائے ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک ماہ قبل تک پنجاب بھر میں بیس کلو آٹے کا تھیلا 805 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جو اس وقت ایک ہزار روپے میں بیچا جا رہا ہے فلورملز ایسوسی ایشن کی قیادت پر اب انتہائی دباو بڑھ رہا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت کے تناسب سے آٹے کی قیمت مقرر کی جائے جس کا مطلب ہے کہ آٹا تھیلا 1075 سے1100 روپے میں فروخت ہوگا۔
حیرت اس پر ہے کہ وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک فخر امام نے کٹائی کے سیزن کے فوری بعد گندم اور آٹے کی مہنگے داموں فروخت پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر کا بیان اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
یاد رہے کہ کٹائی کے بعد صرف 2 ماہ قبل کاشتکاروں سے 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی اور اب وہ مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئی۔ ملک کو عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے 15 لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے، اس لیے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے۔
وفاقی وزیر کے بیان سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میںبہت جلد گندم کا بحران سر اٹھانے والا ہے کیونکہ گندم کا سیزن حال ہی میںختم ہوا ہے اور اگر حکومت گندم خریدنے کے مطلوبہ ٹارگٹ تک نہیںپہنچ سکی تو سال کے اختتام تک کیا صورتحال ہوگی۔ اس امر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسانوں نے گندم 14 سو روپے فی من فروخت کی اور اب گندم 18 سو اور 2 ہزار روپے فی من پر فروخت کی جارہی ہے۔ اور سال کے اختتام تک اندازََ گندم کی قیمت 3 ہزار فی من سے اوپر جائے گا اور 20 کلو آٹھے تھیلے کی قیمت 1500 روپے تک پہنچ جائے گی ۔
یاد رہے کہ محکمہ خوراک ہر سال اوسطاً36 لاکھ ٹن گندم فلور ملز کو فراہم کرتا ہے جبکہ گزشتہ تین برس کی بات کی جائے تو 40 لاکھ ٹن سالانہ سے زائد گندم ملوں کو فراہم کی گئی۔ پنجاب میں آٹے کی ضروریات کیلئے درکار مجموعی گندم کا 60 فیصد محکمہ خوراک کی فراہم کردہ گندم سے پورا ہوتا جبکہ بقیہ40 فیصد اوپن مارکیٹ سے لی گئی گندم سے پورا ہوتا ہے لیکن اس بار پنجاب حکومت نے ایک غلط حکمت عملی اپناتے ہوئے فلورملز کو مئی تا ستمبر تک کی ضروریات کیلئے گندم ذخائر خریدنے سے روک دیا اور صرف 3 دن کی پسائی کیلئے درکار گندم خریدنے کی ’’زبانی کلامی‘‘ اجازت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں کی تعداد میں ملوں کی خرید کردہ گندم سے بھری گاڑیوں کو اسسٹنٹ کمشنرز نے سرکاری گوداموں پر زبردستی اتارا ۔ غلہ منڈیوں کو ویران کیا گیا جس کے نتیجہ میں بڑی مقدار میں گندم ذخیرہ ہو گئی۔
محکمہ خوراک بھی اپنا 45 لاکھ ٹن کا ہدف مکمل نہیں کر سکا اور فلورملز کو بھی 18 لاکھ ٹن سٹاکس بنانے سے روک دیا گیا جس کا نتیجہ اب اوپن مارکیٹ میں گندم کی بڑھتی ہوئی قیمت کے بحران کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ غلہ منڈیوں کے آڑھتیوں سمیت ذخیرہ اندوز اس وقت حکومت کی کمزوری اور فلور مل مالکان کی ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہوئے گندم کی منہ مانگی قیمت طلب کر رہے ہیں ۔
حکوت اس امر کو ذہن میںرکھے کہ کورونا یا مہنگائی نے تو عوام کو سڑکوں پر نہیں نکالا لیکن اگر آٹا غریب کی پہنچ سے دور ہو گیا تو پھر بھوک اتنی ظالم چیز ہے کہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر لے آئے گی اور حکومت کا وجود خطرے میںپڑ جائے گا۔