دنیا میی جاسوسی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مختلف ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دوسرے ممالک میں جاسوس بھیجتے رہتے ہیں جس کے ذریعے فوجی معلومات اکھٹا کرنا، قومی راز چوری کرنا اورانتشار پھیلانا جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
روڈلف ایبل( Rudolf Abel) ایک روسی جاسوسی تھا اور تقریباً 9 سال امریکا میں فوٹوگرافر اور پینٹر کی حیثیت سے مقیم رہا۔ وہ امریکا کے جوہری راز روس منتقل کرتا رہا ۔ اس کے برعکس کلبھوشن یادیو پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کا حصہ رہا۔ وہ سیکڑوں پاکستانی شہریوں کے جان ومال کو نتصان پہنچانے کا ذمہ دار تھا اور باقاعدہ بھارتی بحریہ اور انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کا تنخواہ دارملازم تھا ۔ یہی بات پکڑے گئے جاسوسوں میں اسے نمایاں کرتی ہے۔
3 مارچ 2016 کو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی تحویل میں آنے کے تقریباً 3 ہفتے بعد پاکستانی ٹیلی وژن پر ایک اقراری ویڈیو کے ذریعے دنیا کو یہ خبرملی کہ بھارتی نیوی کا ایک حاضر افسر پا کستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے کھیل میں ملوث ہے۔
یہی وہ وقت تھا جب بھارت نے کلبھوشن کی گرفتاری اور دفاع میں مختلف نکات اٹھائے اس کو قو نصلر رسائی نہ دینا بھی ایک بڑا مسئلہ بنا رہا۔ جاسوسی اور دہشت گردی جیسی شرمناک منصوبہ بندی سے توجہ ہٹانے کے لےنئی دلی حکومت نے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی نہ دینے پر واویلا کیا۔ 2016 اور 2017 کے درمیان بھارت کی حکومت نے قونصلر ریلیشنز انڈر آرٹیکل 36 ویانا کنونشن کومضبوط قانونی بنیاد بناتے ہوئے عالمی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کلبھوشن پر اس دوران ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا اور اپریل 2017 میں اسے سزائے موت سناد ی گئی ۔
قونصلر رسائی کا آرٹیکل 36 بی واضح طور پر کہتا ہے ’’ متعلقہ ملک کا کوئی شہری اگر گرفتار کیا جائے، قید کیا جائے یا ٹرائل کے لیے حراست میں ہو تو اس شخص کی قونصلر رسائی کی در خواست کو بغیر تاخیر متعلقہ قونصلر تک پہنچانا حکام کا کام ہےاور اس کے حقوق سے آگاہ کرنا بھی حکام کی ذمہ داری ہے۔
آرٹیکل 36 سی کے مطابق قونصلر گرفتار شخص سے ملنے، بات چیت کرنے اور اس کی قانونی چارہ جوئی میں مدد کا حق رکھتا ہے۔
اس آرٹیکل کے دوسرے پیراگرف میی لکھا گیا ہے ’’یہ تمام حقوق میزبان ملک کے اپنے قوانین کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کی روشنی میی استعمال کیے جائیں گے۔‘‘
بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں یہ نکتہ اٹھایا کہ 16 بار قونصلر رسائی کی درخواست مسترد کر کے کلبھوشن کودی جانے والی سزا نا انصافی ہے کیونکہ اسی کا نکتہ نظر سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ دراصل نئی دلی قونصلر رسائی کی آڑ لے کرجاسوسی اور دہشت گردی کے اس پاکستانی کیس کوتباہ کرنا چاہتا تھا۔ پاکستانی حکومت نے اپنے مروجہ قوا نین کے سہارے قونصلر رسائی دینےسے انکار کیا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے بھی قونصلر رسائی نہیں مہیا کی گئی۔
عالمی عدالت انصاف نے 2019 میں بھارت کے تمام دلائل کو رد کرتے ہوئے پاکستان کو ویانا کنو نشن کے آرٹیکل 36 کے تحت کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی فراہم کرنے کا کہا ۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا اس پر دو ٹوک ٹوئٹ سامنا جس میں انہوں نے لکھا ’’ وہ( کلبھوشن یادیو) پاکستان کے لوگوں کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور پاکستان اپنے قوانین کے مطابق عمل درآ مد کرے گا۔‘‘
2019 میں پاکستان نے پہلی بار کلبھوشن کو قونصلر رسائی فراہم کی جس میں قونصلر کے علاوہ اس کی فیملی نے بھی ملاقات کی ۔ یہ ملاقات شیشہ کی دیوار کے آر پار آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ ہوئی ۔ حال ہی میں دوسری قونصلر رسائی بھارتی سفارت کاروں کے اعتراضات کی نذر ہو گئی ۔ پاکستان نے اب تیسری بار قونصلر رسائی کی پیشکش کی ہے ۔ یہ رسائی سیکورٹی پرسنل کے بغیر بھی دی جا سکتی ہے تاہم تادم تحریر بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔
قونصلر رسائی کا یہ سارا ڈرامہ سزا پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے لئے رچایا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق کلبھوشن یادیو نے سزائے موت پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے اگرچہ اس کی رحم کی درخواست ابھی التوا میں پڑی ہے۔ دوسری جانب بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ درخواست دائر نہ کرنے کے لئے پاکستانی حکام کا کلبھوشن پر دباؤ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان سے باہر کا کوئی وکیل اس کیس میں نظرثانی کے لئے مقرر ہو جبکہ پاکستان اس کے حق میں نہیں ہے۔
کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل نہ ہونا اور دونوں ملکوں کے درمیان جا ری اس قانونی بحث کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی نئی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ خبروں کے مطابق پاکستان کے شہر کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کی کڑیاں ’’را‘‘ سے ملتی ہیں جبکہ گزشتہ دنوں کراچی میں بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاریاں بھی نئی سازشوں ہی شاخسانہ ہے ۔
دانیا ل فخر