آپ ایک چھوٹا سا وٹس اپ گروپ بنا لیں، آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی دیر میں مُلاں برادری آپ کے اس گروپ کو اپنی پوسٹوں سے پُر کر دے گی۔ طرح طرح کے مولوی، قاری اور حافظ ایسی پھلجڑیاں چھوڑیں گے کہ ا ٓپ کے گروپ کو چار چاند لگا دیں گے۔ گردے کی پتھری، مثانے کی سوزش،معدے کی تکلیف سے لے کر قومی و بین الاقوامی مسائل تک یہ حضرات بغیر حصول علم کے خم ٹھونک کر اپنی رائے دیتے ہیں اور اگر آپ ذرابھی چون و چراں کرتے ہیں تو مذہبی کارڈ استعمال کرکے آپ کا پتہ کاٹ دیا جاتا ہے۔
اس مذہبی کارڈ کے بے محابا استعمال کی وجہ سے عوام کا ہر جگہ روحانی اور فکری استحصال ہو رہا ہے۔ عوام کے منہ میں ہمیشہ مولانا حضرات کی بات ہوتی ہے۔ اور بعض مولانا حضرات کے منہ میں، دنیا ومافیہا سے بے خبر من گھڑت کہانیاں ہوتی ہیں۔یہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے کسی بھی لفظ، جملے یا بیان کا ردّعمل کیا ہو سکتا ہے!؟
یہ بڑے آرام سے ۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ میں ہندوستانی لڑاکا طیاروں کی ایران میں لینڈنگ کرواتے ہیں، یہ بڑے مزے سے ۱۹۷۱ کی جنگ میں بنگلہ دیشی قیادت کو امام خمینی ؒ کا مقلد کہتے ہیں۔ یہ سانحہ راجہ بازار راولپنڈی میں اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کیلئے اپنے ہی مدرسے کو آگ لگاتے ہیں اور اپنے ہی بندوں کو قتل کردیتے ہیں۔یہ پاک فوج کو ناپاک فوج کہہ کر فوجی جوانوں کو زندہ حالت میں آگ لگاتے ہیں اور اُ نکے گلے کاٹتے ہیں، یہ ذہنی مریضوں کو بھی گستاخِ رسول کہہ کر سنگسار کروا دیتے ہیں۔۔۔یہ میجر عزیز بھٹی کی شہادت کا ذمہ دار قاسم سلیمانی کو قرار دیدیتے ہیں،یہ ویسے تو نبی رحمتﷺ کی امت کے علما کہلواتے ہیں لیکن اے پی ایف کے بچوں پر بھی انہیں کوئی رحم نہیں آتا۔ انہیں لال مسجد کی طرح کوئی مرکزی مسجد ہاتھ لگ جائے تو یہ وہیں پر ہتھیار لے کر پاک فوج کے خلاف مورچہ زن ہو جاتے ہیں۔
گویا دنیا میں جینے کا حق صرف انہی کو ہے۔ ان کے مطابق یہ جو کریں اُس کے مقابلے میں بولنے والا کافر، مشرک، ضال، مُفسد اور ملعون ۔۔۔ ہے،اِ ن پر جو اعتراض کرے وہ گمراہ، جو سوال کرے وہ منافق، جو دلیل مانگے وہ مشرک، اور جو اِن کی بات کو رد کرے وہ ملعون ہے۔
یہ ہتھیار اٹھالیں تو وہ جہاد کہلاتا ہے، کوئی اور اٹھائے تو وہ مفسد فی الارض ہے، یہ دوسروں کی عبادت گاہوں اور مساجد پر قبضہ کریں تو وہاں اِن کی نماز ہوجاتی ہے لیکن کوئی دوسرا ایسا کرے تو یہ غصب ہے۔ ان کی منطق کے مطابق دہلی سے لے کر واشنگٹن تک ہر شہر اور محلے میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی و مسجد اور آذان ہونی چاہیے، لیکن دوسرے ادیان یا مذاہب کے لوگوں کو واصلِ جہنم کر دینا چاہیے اور اُن کی عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے کرنے چاہیے۔
عجیب تضاد سے بھری مخلوق ہے یہ۔۔۔انہیں دنیا کے ہر شخص کی خطائیں اور گناہ نظر آتے ہیں لیکن ان کی اپنی غلطیاں مذہبی کارڈ کے ذریعے اجتھادی غلطیاں کہلاتی ہیں،یعنی ان کی غلطیوں پر آپ انہیں ٹوک نہیں سکتے۔ یہ دوسروں کے اسلاف حتیّٰ پیغمبرِ اسلام کے اسلاف کو بھی کافر و مشرک کہنے سے نہیں کتراتے لیکن خود اپنے اسلاف کو سلف ِ صالحین کہہ کر اُن پر بحث کو شجرِ ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔جو اِن کے بزرگ کہہ گئے ہیں اُس کو بعد کی نسلیں مسترد کرنے اور غلط کہنے کی اجازت نہیں رکھتیں چونکہ ان کے بزرگ اکابرین ہیں لیکن دوسروں کے بزرگ اکابرین نہیں بلکہ معاندین ہیں۔
اِن سے پوچھ لیجئے ، اِن کے بقول مسلمان کو صرف توحید کے پرچم کے نیچے جنگ لڑنی چاہیے لیکن اگر انہیں امریکہ ڈالر دے تو امریکہ کے پرچم کے نیچے بھی یہ جہاد کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے فتووں میں جنسی استحصال اور زنا کی سزا سنگسار ، کوڑے اور قتل ہے لیکن ان کے اپنے مدارس میں یہ سب روا ہے۔ نہ صرف یہ کہ روا ہے بلکہ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئےاسے مدارس کو بدنام کرنے کی سازش کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کے بقول آمریت بری چیز ہے لیکن سعودی آمریت میں کوئی برائی نہیں، اسرائیل سے دوستی ناقابلِ معافی جرم ہے لیکن عرب ریاستوں کی اسرائیل سے دوستی رواداری ہے۔ شراب حرام ہے لیکن سعودی شہزادوں کیلئے نہیں۔
ان کے نزدیک قبور کی تعمیر تو بدعت ہے لیکن بیت اللہ کے گرد بلند وبالا شاہی محل ، ہوٹل، سینما اور جوئے کے اڈے بنانا بالکل جائز ہے۔ چونکہ قبریں دوسروں کی ہیں اور ہوٹل وغیرہ ان کے اپنے ہیں۔اِن سے پوچھ لیجئے ، ان کی سوچ ، نظریے اور عقیدے کے مطابق مسجدِ قرطبہ کو گرجا گھر بنانا تاریخ اور مذہب کے ساتھ ظلم ہے لیکن آیا صوفیہ کے چرچ کو مسجد بنانا بالکل جائز ہے۔ المختصر یہ کہ آج ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ دو چہرے، دو زبانیں اور دوہرا معیار رکھنے والے لوگ جس قوم پر مسلط ہوں کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے۔
نذر حافی