شفقنا اردو:عید کے بعد پاکستان میںآل پارٹیز کانفرنس کا موسم بھی عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ ایسی کانفرنسز اکثر ایسے موقع پر ہوتی دکھائی دیتی ہیں جب بلی کے گلے میںگھنٹی باندھنے پر کوئی بھی تیار نہیں ہوتا اس لیے سب کو مشترکہ طور پر بلی کے گلے میںگھنٹی باندھنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے مگر پھر بھی دل سے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جب آل پارٹیز کانفرنس نہ ہوئی اور شاید ہی کوئی آل پارٹیز کانفرنس ہو جو کبھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہو۔ یاد رہے کہ ایسی ہی ایک آل پارٹیز کانفرنس گزشتہ برس اسی سیزن میںہوئی تھی جس کی سربراہی مولانا فضل الرحمان صاحب کر رہے تھے اور اس کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے قبل اپوزیشن جماعتیں اس کے ایجنڈے کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کر تی رہی تھیں لیکن اس کے اعلامیے میں کوئی واضح اعلان موجود نہیں تھا۔
مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی میں اپنی تجاویز رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا ایک سال مکمل ہونے پر 25 جولائی کو یومِ سیاہ منایا جائے لیکن ساتھ ہی انھوں نے اپوزیشن کے تمام ارکان کے استعفے جمع کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔ لیکن جب مولانا سڑکوں پر نکلے تو کوئی بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہ تھا اور بالاخر مولانا بے نیل مرام لوٹے۔ اور لگ اس دفعہ بھی یہی رہا ہے کہ سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی پارٹی بھی کل جماعتی کانفرنس کے لیے سنجیدہ نہیںہے۔
تاہم موجودہ حالات میںجہاںپیٹرول کی قیمت بڑھ چکی ہے، ڈالر 171 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے،
افراط زر 6۔10 کی حد عبور کر چکا ہے اورعوام مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں نوحہ کناں ہیں۔ ایسے حالات میں اگر اپوزیشن احتجاج کے لئے نکلتی ہے تو عوام میں خوب پذیرائی ملنے کا امکان ہے ۔ ن لیگ پر مفاہمت کی سیاست ا ور نیب کیسز پر ڈیل کے الزمات کا سامنا تھا ۔ پیپلزپارٹی پر بھی اپنے کیسز ختم کروانے کے لئے حکومت کو بلیک میل کرنے کا الزام تھا ۔ مولانا فضل الرحمٰن کو آزادی مارچ کی ناکام کا غم ہے اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی موجود صورتحال میں حکومت سے تنگ ہیں ۔
ان حالات میں سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے اے پی سی کال اور پھر تحریک کا سلسلہ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ مائنس تھری فارمولا تو فی الحال کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کوئی جماعت کورونا اور دیگر قدرتی آفات کے دور میں اقتدار سنبھالنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔مائنس ون فارمولا البتہ اس وقت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی ہی پہلی ترجیح ہے ۔ اور یہ بات بھی ممکن ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے پیچھے شاید وہی قوتیں ہوںجو حکومت کو دھمکانے اور ان کو ہٹانے کے لیے اکثر اپوزیشن کا کل جماعتی کارڈ کھیلتی ہیں اور اس میںکامیاب رہتی ہیں۔
بہر کیف یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ اس صورت حال کو ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کرنے والے نواز شریف اور مریم نوز کی پراسرار خاموشی، کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن سے پہلے شہباز شریف کی لندن سے اچانک واپسی اور اس کے بعد سے متبادل کے طور پر خود اپنے آپ کو اہل امید وار ثابت کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ شہباز شریف گزشتہ کچھ عرصہ سے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرنے یا فون پر بات کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے آج آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے اور سیاسی تبدیلی کے لئے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی فون پر گفتگو کے بعد سامنے آیا ہے۔ کیا اس گفتگو کے بعد یہ یقین کرلیا جائے کہ شہباز شریف اب کسی چور دروازے سے وزیر اعظم بننے کے طریقہ کو ترک کرچکے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اسی اصول کو مانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست کے لئے مقتدر حلقوں سے درپردہ معاملات طے کرنا ضروری ہے تو پھر عمران خان کے وزیر اعظم رہنے میں کیا خرابی ہے؟
اس کل جماعتی کانفرنس میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کون سی پارٹی کس ایجنڈے کے تحت اس میںشرکت کر رہی ہے۔ اگر کوئی پارٹی محض خود کو بچانے کے لیے کسی غیر جمہوری قوت کے اشارے پر اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے بدترین ثابت ہوگا۔
حسن اقبال اور قمر زمان کائرہ کی پریس کانفرنس میں مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بظاہر ان سے نکلنے کا ایک ہی حل پیش کیا گیا ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو ختم کیا جائے۔ یہ رویہ ایک طرف اپوزیشن کی تہی دامنی کی چغلی کھاتا ہے تو دوسری طرف یہ واضح کرتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں اور تحریک انصاف کی لڑائی جمہوری روایت کو مضبوط کرنے اور مسائل حل کرنے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا مطمح نظر اقتدار میں حصہ داری ہے۔ اگر یہی نقط نظر رہا تو یہ اے پی سی بھی محض ایک بندر تماشا بن جائے گی۔
شفقنا اردو