ہمارے صوبہ پنجاب کی مقدس اسمبلی میں آئے روز مقدس قراردادیں پیش ہو رہی ہیں۔ گزشتہ قراردادوں پر پہلے بات ہو چکی ہے۔ ابھی پاکستان مسلم لیگ ن کی ایم پی اے محترمہ رخسانہ کوثر نے فیشن ایبل یا ڈیزائن دار داڑھی بنوانے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔قرارداد کے مطابق داڑھی پیغمبر اسلام کی سنت ہے اور اس کے مختلف ڈیزائن بنانا یا بنوانا ‘سخت گناہ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنی داڑھی کی ‘ڈیزائننگ‘ کرواتے ہیں، وہ سنت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ”لہٰذا پنجاب اسمبلی کا یہ ایوان وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ داڑھی کی ڈیزائننگ کروانے والوں اور متعلقہ حجاموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔‘‘
راقم الحروف بھی چاہتا ہے کہ وہ اس قرارداد کی حمایت کر کے اس ثوابِ دارین میں شریک ہو جائے۔ البتہ ہمیں اس بات کا سخت دکھ ہے کہ اس مقدس قرار داد کو معقول طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس قرارداد کے ذریعے سُنتِ رسول ﷺکا مذاق اڑایا گیا ہے۔جیساکہ اس قرارداد میں درج ہے کہ داڑھی پیغمبر اسلام کی سنت ہے۔۔۔ تو اگر یہ داڑھی سنت ہے اور سنت کے ڈیزائن بنوانا اور بنانا ممنوع ہے تو پھر اس سے بڑا جرم تو اس داڑھی پر بلیڈ چلانا اور شیو کرنا ہے۔اس قرارداد میں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ داڑھی پیغمبر اسلام کی سنت ہے اس کے فوراً بعد قرارداد میں یہ آنا چاہیے کہ جو اس سنت پر بلیڈ چلائے اور شیو کرے نیز اس کی ڈیزائننگ کرے اور کروائے اُسے سزا دی جائے ۔
اگر داڑھی منڈوں کو سزا نہیں دی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کی داڑھیاں ہیں اور انہیں ڈیزائننگ نہیں کرانے دی جاتی تو وہ پھرسےشیوا کرالیں۔اس طرح تو شیو کرانے والوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی اور یوں ملک میں سنتِ رسول کی خلاف ورزی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔
قارئین آپ کو یہ سوچنے کی اجازت نہیں ہے کہ پنجاب اسمبلی میں آج کل ایسی مقدس قراردادیں کہاں سے نازل ہوتی ہیں!؟ اورناں ہی آپ کسی کو طالبان خان یا طالبان مائنڈ سیٹ اپ کہنے کا حق رکھتے ہیں۔۔۔ البتہ ہم آپ کی معلومات کیلئے یہ عرض کر دیتے ہیں کہ داڑھی کے بارے میں قانون سازی کا اعزاز دنیا میں آج تک کسی ملک حتیٰ کہ کسی اسلامی ملک کو بھی حاصل نہیں ہوا۔ جہاں تک ہمارے حافظے کا تعلق ہےاس کے مطابق افغانستان میں جب طالبان کا اقتدار قائم ہوا تھا تو اُنہوں نے اُس عرصے میں داڑھی رکھنے کو لازمی قرار دیا تھا ، بعض مقامات پر جن کی داڑھی نہیں ہوتی تھی وہ چادر یا کمبل وغیرہ سے منہ لپیٹ کر باہر نکلتے تھے۔ سبحان اللہ۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔صرف مقدس لوگوں کی مقدس حکومت میں ہی ایسا ہو سکتا ہے۔
اب وہی سوچ اور وہی فکر ہمارے ملک خصوصاً ہماری پنجاب اسمبلی میں نمایاں ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ کان کو اُلٹے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے، بلکہ سیدھے طریقے سے اس قانون کو نافذ کیا جائے اور پہلے مرحلے میں جتنے بھی کلین شیو اور داڑھی منڈ ہیں اُنہیں ایک ہفتے کی مہلت دی جائے، جس آدمی کی ایک ہفتے کے بعد داڑھی نظر نہ آئے، اُسے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، لوگوں کو داڑھیاں رکھوانے کے بعد پھر یہ اعلان کیا جائے کہ خبردار اب جو ڈیزائننگ بنوائے گا، اسے سزا دی جائے گی۔ اس طرح ملک میں چُپکے سے اسلام بھی نافذ ہوجائے گا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو گی۔
قارئینِ محترم ! ہم بہت مقدس لوگ ہیں،لہذا ہماری غلطی کو بھی غلطی کہنا گناہ ہے، ہماری غلطی کا نام اجتہادی غلطی ہے۔ یعنی ہماری غلطی پر بھی ہمیں دوثواب ملتے ہیں ورنہ ایک ثواب تو پکا ہے۔ چونکہ ہم مقدس ہیں اسلئے ہمارے بزرگان بھی مقدس ہیں، اُنہیں اکابرین ملت، بزرگانِ دین اور سلفِ صالحین کا درجہ حاصل ہے۔ اُن کی تاریخ بھی مقدس ہے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اُن کی حیاتِ مقدسہ میں حق ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔
جب ہمارے مقدس اسلاف کی بات ہوتو پھرحق و باطل کا کوئی مطلب نہیں، پھر ہمارے اسلاف اگر آپس میں بھی ایک دوسرے سے لڑکر ایک دوسرے کو قتل کر دیں یا قتل ہوجائیں تو دونوں صورتوں میں وہ بہشتی ہیں۔حق کو ڈھونڈ کر ہم نے کیا کرنا ہے اور باطل کو پہچان کر ہمیں کیا ملے گا!؟ یہ عوام اور جمہوریت، حق اور باطل، صحیح اور غلط ، سچ اور جھوٹ، مومن اور منافق ۔۔۔ اس سب میں کیا رکھا ہے۔ بس آنکھیں بند کریں اور اپنے مقدس اسلاف کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور مرتےمارتے اس جہان سے گزر جائیں۔ یاد رکھئے صرف آنکھیں بند کر کے ہی ہمارا تقدس قائم رہ سکتا ہے۔
اگر ہم نے نئی نسل کو پوچھنے کا موقع دیا، سوال اٹھانے کی فرصت دی،جانچنے اور سمجھنے کا میدان فراہم کیا، کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنے پر شاباش دی تو پھر یہ خود فریبی پر مبنی تقدس اور یہ خود ساختہ مقدس ماب بےنقاب ہو جائیں گے، پھر یہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے مقدس شخصیات کے بُت منہ کے بل گر پڑیں گے۔
یعنی یقین جانئے کہ مقدسات کو مقدس رکھنے کیلئے ہمارے پاس زبردستی کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں؛ بالکل لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے.
ہماری مقدس پنجاب اسمبلی کو اپنی مذکورہ بالا قرارداد میں ترمیم کر کے زبردستی اور طاقت کے ساتھ پہلے لوگوں کو داڑھی رکھوانی چاہیے اور پھر ڈیزائننگ والوں کو سزا دلوانی چاہیے۔
حکومت کی طرف سے یہ اعلان عام کیا جانا چاہیے کہ اب نہیں جناب! اب داڑھی جیسی مقدس شئے کا تقدس قائم رکھنے کیلئے رنگ؛ سائز اور ڈیزائن بھی اسمبلی بتائے گی اور ہاں چلتے چلتے یہ بھی یاد آیا کہ اب کسے رضی اللہ اور کسے علیہ السلام کہنا ہے یہ سب بھی ہماری مقدس حکومت طے کرے گی.