مرزا صا حب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں محبت شادی سے پہلے ہونی چاہیے یا شادی کے بعد ؟ اس پر مرزا صاحب نے ارشاد فرمایا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ محبت شادی سے پہلے ہو یا بعد میں مگر بیوی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے۔ ایک ہمارے فروٖغ نسیم بھائی ہیں جن کی’’ بیوی‘‘ وزارت قانون کی وہ کرسی ہے کہ اگر وہ وزیر ہوں یا وکیل ان سے ان کی محبت رہتی ہے اور وہ اس کرسی کی ہوا بھی کسی کو لگنے نہیں دیتے۔ وہ تو ان دنوں بھی مبینہ طور پر اس کرسی پر بیٹھے رہے جب موصوف وزیر نہ تھے یہ محبت یونہی پروان چڑھتی رہی اگر ایک تحقیقاتی صحافی اس کی خبر نہ لگاتے۔ اس معاملہ پر ایک خاتون اینکر نے جب فروغ بھائی سے سوال کیا تو انہوں نے اپنی روایتی نرم خوئی کا مظاہرہ کیا اور تبسم فرماتے ہوئے بولے میں تو ان دنوں میں کراچی میں تھا جب اسلام آباد میں وزیر قانون کے آفس کی کرسی پر ’’میں ‘‘ بیٹھا تھا۔
فروغ بھائی جو فرماتے ہیں درست فرماتے ہیں کل تک وہ بانی متحدہ کو نیلسن منڈیلا کہتے تھے تو دنیا نے اس کی بات کا بھرم رکھا۔ آج نئے منطق اور دلیل کی کھچڑی بنا کر نیلسن منڈیلا کی بات سے پلٹا کھاتے ہیں تو ان کی یہ بات بھی درست مان لی جاتی ہے ۔ ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ جس طرح پنجاب میں وسیم اکرم پلس ہے اس طرح مرکز میں ایک عدد عبدالقادر پلس ہے جو قانون کی سخت ناک کو اس خوب صورتی سے موم بناکر گوگلی کراتے ہیں کہ بلے باز ہکا بکا رہ جاتا ہے۔
فروغ بھائی ہمارے خان صاحب کو اتنے پیارے ہیں کہ وہ ان سے پہلے استعفیٰ لیتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد وزارت قانون کا قلمدان دینے کے لیے ایک صفحہ پر مشتمل فائل ان کو تھما دیتے ہیں کہ جاؤ ایوان صدر جا کر حلف لے لو۔ ویسے تو اسد عمر،عبدالعلیم خان، فیاض چوہان، سبطین خان وغیرہ بھی کبھی شیروانی پہنتے اور کبھی اتارتے ہیں لیکن جو بات فروغ نسیم کے کالے کوٹ میں ہے وہ شیروانی میں کہاں؟
فروغ بھائی کا قانونی دماغ اتنا تیز ہے کہ سلامتی کے ادارے کے سر براہ کی مدت ملازمت میں تو سیع کا پہلے نوٹیفکیشن جاری کر تے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تو بڑی غلطی ہوگئی ہےاس پر وہ وزیر قانون کے عہدہ سے استعفیٰ دیتے ہیں اور کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچتے ہیں۔ فیصلہ تین دن میں ہو جاتا ہے تو وہ کالا کوٹ ایک طرف رکھتے ہیں اور فائل پکڑ کر پھر حلف لینے صدر علوی کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں پہلے ریفرنس بنایا پھر اٹارنی جنرل منصور علی خان کو گوگلی کرکے آؤٹ کیا اور پھر جب میچ ہارنے لگے تو خود گلوز پیڈز پہن کر قانون کی پچ پر پہنچ گئے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ بھائی صاحب یہ ٹی ٹوئنٹی نہیں نہ ہی ون ڈے ہے یہ تو اپنی نوعیت کا ٹیسٹ میچ ہے فیصلہ ہوگا بھی تو وقت لگے گا توموصوف تھک ہار کر دوبارہ وزات قانون کے ڈریسنگ روم میں پہنچ گئے۔
کپتان فروغ شناس تھا بولے بھائی آپ کا کام پچ پر نہیں۔ وزارت قانون جا کر کلبھوشن آرڈیننس بنائیں، اپوزیشن کے ساتھ نیب نیب کھیلنا ہے، ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے 14 قوانین بنانے ہیں ۔18 ویں ترمیم اوراین ایف سی کا بھی بہت سا کام باقی ہے اس لئے سیدھے ایوان صد ر جائیں اورقانون سے کھلواڑ کرنے کے بجائے قانون سازی میں حکومت کی مدد کریں جو جناب کا کام ہے۔
فروغ بھائی بھلے مانس آدمی ہیں ہرحکو مت کے سا تھ ’’فٹ‘‘ ہونے کا فن انہیں آتا ہے اس پر انہیں بلاول بھٹو شریف الدین پیرزادہ بننےکا طعنہ بھی دیتے ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنی وضع داری نہیں چھوڑتے۔ بڑوں کو تو کیا چھوٹوں کو بھی جواب دینا معیوب سمجھتے ہیں۔ بس آپ ان کی آنیاں جانیاں دیکھتے جائیں۔
(شہزاداقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دودہائیوں سےحالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔)