آ پ نے سنا ہو گا کہ گدھے نے دنیا کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ محاورہ کسی حکمران پر نہیں بنا ہو گا ۔ گدھے نے بھی عجیب قسمت پائی ہے ایشیا میں ذلیل و خوار ہے اور امریکا میں جمہوریت (ڈیموکریٹ ) کا نشان بنا ہوا ہے۔
اس بار کا سارا جوا اسی بات پر ہے کہ نومبر کے ایلکشن میں گدھے دنیا پر حکومت کرینگے یا نہیں؟
خیر موضوع امریکی گدھے نہیں بلکہ پاکستانی گدھے ہیں ۔ ان گدھوں کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا کہ
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کچھ نظریاتی گدھے یہ سمجھتے ہیں کہ جن کو ہم منتخب کر کے لائے ہیں وہ انسان ہے ۔لیکن میں حیرت میں اس وقت رہا جب میری گلی کے نکڑ پر موجود پان والے نے تاریخی جملہ کہا کہ ہم نے ملک کا بوجھ گدھوں پر ڈال دیا ہے ۔
میں نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پوچھا عتیق بھائی امریکا والے تو باقاعدہ گدھے کو ایلکشن میں لا رہے ہیں ۔ انھوں نے پان پر چونا مار کر کہا انھیں معلوم تو ہے کہ وہ گدھے کو منتخب کر کے لا رہے ہیں ،ہمیں تو دو سال بعد جب کھال اتری تو معلوم ہوا کہ گھوڑا نہیں گدھا ہے ۔
عتیق بھائی کا تجزیہ یہ ہے کہ اصل میں گدھا یہ سمجھتا ہے کہ اس نے دنیا کا بوجھ اٹھا کر رکھا ہے۔ اور سینا تان کر چلتا ہے ۔ یہ سمجھتا ہے کہ اس سے پہلے دنیا کسی نے نہیں اٹھائی ۔اصل میں تو پیچھے بیٹھا انسان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے گدھے پر کتنا بوجھ ڈالنا ہے اور کیسے ڈبہ بجا کر گدھے کو چلانا ہے ۔
میرا موضوع بلکل سیاسی نہیں تھا لیکن عتیق بھائی کی پوری کوشش تھی کہ سیاست اور گدھے کو ایسے ہی ملایا جائے جیسے وہ پان پر چونے اور کتھے کو ملاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ بارش میں کتنا انجوائے کیا ؟ انھوں نے نظر اٹھائے بغیر پان میں پتی ڈالی اور الٹا سوال مجھ پر داغ دیا۔ میاں رنگیلا کی فلم گدھا اور انسان دیکھی ہے؟ میں نے منہ سے کچھ کہے بغیر ہاں میں گردن ہلا دی ۔ فورا کہنے لگے کراچی کی بارش میں گدھا انجوائے کر سکتا ہے انسان نہیں ۔ فلم کی کہانی کو کراچی کی بارش سے ملاتے ہوئے کہنے لگے فلم میں جب گدھا انسان بن جاتا ہے تو بھی گھاس ہی کھاتا ہے ۔ اس شہر میں کوئی بھی نعرہ لگا کر آ جائے ہماری حالت گدھے والی ہی ہوگی ۔ ہمیں گندے پانی میں ہی رہنا ہے ۔ اور گھاس ہی کھانی ہے۔
میں سمجھ گیا کہ عتیق بھائی کی سوئی اٹک گئی ہے۔ میں نے کہا کہ کراچی میں ایک نا ایک دن مسئلے حل ہو جائینگے ۔ گرین بس بن جائیگی ،k4 پانی کا منصوبہ پورا ہو جائیگا ۔ عتیق بھائی نے گردن اٹھائی اور تلخ لہجے میں پوچھا بھائی چائے پیو گے ؟ میں سمجھ گیا کہ عتیق بھائی کی ہٹ چکی ہے اور اب وہ مجھے بھگانا چاہتے ہیں ۔ کہنے لگے میاں اس ملک کے مسئلے گدھے حل نہیں کر سکتے ۔ ہم میں سے کوئی گدھا اٹھ کر شور مچائے گا اور ہم ایک اور گدھے کو لے آ ئینگے ۔ بہتر یہ ہے کہ اپنا اور میرا قیمتی وقت ضائع مت کرو چائے پیو ،پان کھاؤ ،گھر جاؤ اور سو جاو۔ میں نے گھر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سوچا کہ عتیق بھائی کو حبیب جالب کی نظم سناوں لیکن مجھے لگا میرے پان کا چونا تیز ہو گیا ہے کہیں اور موڈ نہ خراب ہو جائیں آ پ پڑھیں اور مجھے بتائیں گدھا انسان بن گیا۔یا دس سے بیس کروڑ ہو گئے۔
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہےمہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب ہے
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قوم محوِ خواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا
میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو ‘یقین‘ہے یہ ‘گماں‘
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
……میں نے اس سے
تحریر: انیس منصوری