پاکستان فرقہ واریت کے حوالے سے باردو کا ڈھیر ہے ۔ فرقہ واریت کا یہ ڈھیر ضیا الحق نے بھڑکایا تھا اور تین دہائیوںکے بعد بھی ضیا الحق کے پیرو کار اسے کسی نہ کسی طرحسلگائے رکھتے ہیں اور اسی ڈھیر کی وجہ سے بیرونی قوتوں نے پاکستان کو فرقہ واریت کا میدان بنایا اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ اب بھی کیا جا رہا ہے۔ بارود کا یہ ڈھیر کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے کیوںکہ بعض قوتیںشدو مد سے کوشاںہیںکہ پاکستان کو مکمل طور پر اس آگ میںدھکیل دیا جائے اور بد قسمتی سے ان میںسے بعضقوتیںسیاسی مسند پر بھی براجمان ہیں۔
پاکستان میںایسے حالات میںجب وہ نہ تو معاشی طور پر سنبھل رہا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام کہیںنظر آرہا ہے چوہدری پرویز الہی نے تحفظ بنیاد اسلام نامی بل پیش کر کے ایک نیا تناذعہ کھڑا کر دیا ہے جس سے ملک فرقہ واریت کی آگ میںجلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس بل کے بارے میںیہ کہا گیا کہ یہ بل فرقہ واریت کو کم کرنے میںمدد دے گا مگر موجودہ حالات سے مختلف مذہبی جماعتوںکے شدید احتجاج کے بعد یہ دکھائی دے رہا ہے کہ یہ بل ملک کو فرقہ واریت کی ایک نئی آگ میںدھکیل دے گا؟ اور موجودہ حکومت یقینا ایسے وقت میںاس بوجھ کی متحمل نہیںہوسکتی نتیجتََا خدشہ ہے کہ یہ حکومت مزید اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکے۔
یہ بات پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ آخر اس بل کے پیچھے سپییکر قومی اسمبلی کے خفیہ مقاصد کیا ہیں؟یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عمران خان صاحب چوہدری برادران کو پسند نہیںکرتے اور جواب آںغزل چوہدری براردران بھی عمران خان کی طرف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار مختلف حرکات سے کرتے رہتے ہیں۔ عثمان بزدار کو جب ہٹانے کے بات آئی تو چوہدری بردران اس بات پر ڈٹ گئے کہ عثمان بزدار کی جگہ وہی لیں گے اور پھر جب ان کی بات نہیںمانی گئی تو انہوں نے ںہ صرف وزیراعظم کی طرف سے دئیے گئے عشائیے میں شرکت سے انکار کر دیا بلکہ اسی روز اپنے چند حامیوں کا ایک الگ اعشائیہ ترتیب دے دیا جس کا مقصد وزیر اعظم تک اپنی ناراضگی پہنچانا تھا۔
خیر وہ بات تو آئی گئی ہو گئی اب جب یہ خبر سامنے آئی کی نیب نے چوہدری برادران کے اثاثوںکی چھان بین شروع کر دی ہے تو چوہدری برادران نے ایک مرتبہ پھر جوابی وار کرنے کا سوچا مگر یہ جوابی وار انتہائی حد تک خطرناک تھا۔ چوہدری برادران کو اپنی سیاسی تہی دامنی کا اندازہ ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہونے کے بعد ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ سو انہوں نے اپنے پرانے ناراضمذہبی حلقوںکو ایک مرتبہ پھر منانے کا سوچا اور ان کو خوش کرنے کے لیے ایک ایسا بل پیش کر دیا جس نے ملک میںمذہبی و سیاسی بھونچال برپا کر دیا۔ اب اس سے نہ صرف وہ مذہبی حلقوںمیں قابل تحسین ٹھہرے ہیںبلکہ حکومت کو بھی ایک بڑی مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔
کیا یہ بل منظور ہو جائے گا؟
اس وقت پورے پاکستان میںیہ گونج ہے کہ کیا یہ بل منظور ہو جائے گا یا نہیں؟تو یہ بات بہت واضح ہے کہ اس بل کی منظوری کسی طور ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس بل پر گورنر چوہدری سرور کے دستخط ضروری ہیں۔ اور وہ اس پر کبھی دستخط نہیںکریںگے اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ اول تو ذاتی اختلافات، چوہدری سرور چوہدری برادران کو پسند نہیںکرتے کیونکہ حال ہی میں چوہدری برادران نے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں اپنے بندے تعینات کروانے کی کوشش کی جس پر گورنر چوہدری سرور جو کہ پنجاب کی تمام یونیورسٹیز کے چانسلر بھی ہیں، اس پر سخت سیخ پا ہوئے اور چوہدری برادران کو سختی سے یونیورسٹیز کے معاملات میںمداخلت سے روک دیا۔
دوسری بڑی وجہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جس نے سختی سے اس بل کو مسترد کرنے کی بات کی ہے۔ اور وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ایسے کسی بل کی حمایت نہیں کرے گی جو فرقہ ورانہ تقسیم پیدا کرے۔ انہوں نے کہا ایسی قانون سازی ہونی چاہئے جو مختلف فرقوں کو آپس میں جوڑے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ بل کسی صورت پاس نہیںہو سکتا۔ تاہم چوہدری برادران اپنا کھیل کھیل چکے ہیںاب وہ مذہبی حلقوں کو کہہ سکتے ہیںہم نے تو اپنا کام پورا کیا اب آگے حکومت نے اس بل کو منظور نہیںکیا تو اس میںہمارا کیا قصور ہے؟اور دوسری طرف اس سے حکومت کے خلاف دائیںبازو کے ایسے مذہبی حلقوں کے جو اس بل کے حامی ہیں، نفرت بھی پیدا ہورہی ہے کہ حکومت اس بل کو منظور نہیںکررہی۔ پس چوہدری برادران نے اس مرتبہ حکومت پر کاری وار کیا ہے۔