پانچ اگست کی صبح بھارت کا یہ اعلان دھچکے سے کم نہیں تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اسے دو ٹکڑے کر کے بھارت کا حصہ بنا رہا ہے۔ بھارت اس پر کام تو لمبے عرصے سے کر رہا تھا۔ 2014 میں برسر اقتدار آتے ہی مودی سرکار نے واضح کر دیا تھا کہ وہ کشمیریوں اور پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دے گی۔
آرٹیکل35A اور 370 کے خاتمے میں مودی، امت شاہ اور اجیت دوول کا کردار سب سے اہم ہے۔ اب تو خبروں میں آ چکا کہ بھارت نے اپنے اہم ترین دفاعی اور معاشی دوست ملک امریکہ کو یہ قدم اٹھانے سے ٹھیک چار دن پہلے اعتماد میں لے لیا تھا۔
اس کا سادہ سا مطلب یہ کہ چونکہ صدر ٹرمپ جانتے تھے کہ مودی کیا اقدام کرنے جا رہا ہے اسی لیے 22 جولائی کی ملاقات میں کشمیر پر وزیر اعظم عمران خان سے ان کی ثالثی کی پیشکش اس وقت کے پاکستانی موقف کے تناظر میں نہیں بلکہ مستقبل کے بھارتی موقف کے تناظر میں تھی۔
کیا صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش ’کا مطلب کشمیر کا بٹوارہ تھا؟ کیا اس کا مطلب ’اِدھر ہم ادھر تم‘ یا ’جو ہمارا وہ ہمارا، جو تمہارا سو تمہارا‘ کا فارمولا تھا؟ کیا پاکستان اپنی معصومیت یا نااہلی میں بھارت اور امریکہ کی چال کے جال میں پھنس گیا؟
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد امریکہ کی طرف سے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ گرداننا پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہونی چاہیے تھی۔ کہاں صدر ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر رہے تھے اور کہاں امریکہ اب اسے بھارت کا داخلی معاملہ کہہ رہے ہیں۔ تاہم اس سانحہ کو ایک سال گزر چکا ہے اور پاکستان نے سوائے اس کی مذمت کرنے، چند منٹ کا خاموش رہ کر احتجاج کرنے یا گانے ریلیز کرنے کے علاہ کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔
درحقیقت پاکستان کی خارجہ پالیسی اس سارے معاملے میںمکمل طور پر ناکام رہی ہے۔۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ انڈیا نےنہ صرف کشمیریوں کو آئینی آہن سے آزاد کر دیا بلکہ ساتھ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تابوت میں کیل ٹھوک دی۔ ایک طرف کشمیر کے نام پر مرتب 70 برس کی خارجہ پالیسی کا بھاںڈا پھوٹا اور دوسری جانب محض کھوکھلے نعروں اور دعووں کی قلعی اترنے لگی۔ پانچ اگست سے تاحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ڈھول سرِ عام بج رہا ہے۔ مسلم اُمّہ کے افق پر گزشت ایک سال میں کوئی پوزیشن کہیں نھیں بدلی۔ البتہ وزیراعظم نے چند ایک کالز ضرور گھمائیں، مسلم اُمّہ کی افواج کے اتحاد نے کشمیری مسلمانوں کے لیے تو نھیں مگر یمن میں چند تازہ حملے کیے اور ہاں کشمیریوں کی حمایت میں چند ریلیاں بھی نکالیں۔
گو کہ پاکستان یہ دعوی کرتا رہا ہے کہ اس نے فعال خارجہ پالیسی سے کام لیا ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر کے معاملے پر بھارت اپنا پتہ کھیل گیا اور پاکستان مذاکرات کے جواز تلاش کرتا رہ گیا۔ اس اہم معاملے پر اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل اور انسانی حقوق کی کمیٹی کے بعد اب نگاہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر لگی ہیں۔ لیکن اب تک کی سفارتی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں مانی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت دفاعی موڈ میں رکھی۔ ان کے مطابق: ’وزیر اعظم یہ کہتے رہے کہ نریندر مودی انتخابات جیتیں گے تو مذاکرات ہوں گے، کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا، لیکن نریندر مودی نے انتخابات جیتنے کے فوراً بعد جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر دی۔ یہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل تھا۔‘
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کی تمام قومی پالیسیوں کا مرکب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک خلا ہے کہ ملک کے اندر اپوزیشن جماعتوں کو خارجہ پالیسی کے اہم امور اور پاکستان کے موقف کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی بین الاقوامی فورم میں پبلک ڈپلومیسی کر سکیں۔ کشمیر امور کمیٹی کے لیے خارجہ امور کو سمجھنے والا سربراہ چاہیے۔ سیاسی طور پر نوازشوں سے سفارت کاری نہیں ہوتی۔ اب تک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ٹیلی فون ڈپلومیسی کا ہی سہارا لیتے رہے ہیںجب کہ انہیں اس معاملے کے لیے مسلسل دورے کرنے چاہیے تھے۔
تاہم ایک سال گزرنے کے بعد بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر اسی طرحقائم ہے، کشمیر مکمل طور پر لاک ڈاون کی صورتحال میںہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اس معاملے میںدم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو کچھ عرصے بعد وہ کشمیر جو کبھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہوتا تھا اب کہیںاس کا نام ونشان ہی نہ مٹ جائے۔
ٹی ٓاے شمس