تحریک انصاف کی حکومت بڑی لے دے کے بعد انٹی ٹیرراز م ایکٹ ترمیمی بل 2020 اور یونائیٹڈ نیشنز سلامتی کونسل ترمیمی بل 2020 ٗ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ دونوں بلوں کا تعلق دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر مناسب اقدمات کو یقینی بنانا تھا تاکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل سکے۔ پاکستان میں جب بھی قانون سازی یا ترمیم کی کوئی بات ہو ایک غدر مچ جاتا ہے۔ اپوزیشن سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں تمام گڑھے مردے اُکھاڑ لیتی ہے لیکن تمام تر شور شرابہ کے بعد بل منظور ہوجاتا ہے۔
حالیہ ترمیمی بلز انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کی کچھ شرائط پورا کرنے کے لئے ضروری تھیں تا کہ کلبھوشن کے کیس میں عالمی عدالت انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔ اس بات پر حزب اختلاف نے حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور ان ترامیم کو کلبھوشن کے لئے این آراو دینے کے مترادف قرار دیا۔
انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کی شرائط نے کلبھوشن کا کیس پھر کھولنا شروع کر دیا ہے جبکہ اس پر آنے والے بیانات عوام کو اُلجھانے کے لیے کافی ہیں۔ قونصلر رسائی کی اجازت اور اس کے نتیجہ میں آنے والے ردعمل نے تمام معاملہ کو مبہم کردیا۔
بھارتی جاسوس کو ملنے والی دوسری قونصلر رسائی میں ما سوائے سیکورٹی پرسن کے پاکستان نے بھارت کے کہنے پر درمیان میں سے شیشہ اورآڈیو وڈیو ریکارڈنگ کے آلات ہٹا د ئیے لیکن بھارتی حکام اس پر مطمئن نہ ہوئے اور اٹھ کر چل دئیے۔ اگلے ہی دن وزارت خارجہ نے انڈین ہائی کمشنر کو سیکورٹی پرسن کے بغیر تیسری قونصلر رسائی کی پیشکش کر دی ۔ یہ پیشکش اندرون اور بیرون ملک بہت سوں کے لئے حیرانی کا باعث تھی ۔
دوسری جانب سینیٹ مین مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے اس سے آگے کی بات کرکے محب وطن پاکستانیوں کے کان کھڑے کر دئیے جب انہوں نے ایک وفاقی وزیر کے حوالے سے یہ کہا کہ کلبھوشن ملک سے جا چکا ہے۔ مشاہد اللہ کا یہ سوال کہ دوسری قونصلر رسائی کی ویڈیو کی عدم فراہمی اورحکومت کی طرف سے متعلقہ وزیر کی سرزنش نہ کیا جانا کیا معنی رکھتا ہے؟ بہت اہم ہے۔ کیا ویڈیو کی عدم موجودگی اور قونصلر رسائی کا ڈرامہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے؟
قومی اسمبلی کے فلور پر جوش خطابت میں وفاقی وزیر مراد سعید اوردیگر وزراء کلبھوشن کی بات پر باربار ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا حوالہ دیتے ہیں اور عوام کو الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس نے مزنگ چونگی لاہور میں دن دہاڑے دو پاکستانیوں کو گولی مار کر قتل کیا تھا بعد میں وہ قصاص دے کر واپس امریکا چلا گیا، لیکن کلبھوشن یا دیو 2016 میں سیکورٹی اداروں کی لمبے عرصے کی منصوبہ بندی اور کوشش کے بعد پکڑا گیا تھا۔ ثبوت پیش کئے گئےتھے، اقبالی بیان کی دو ویڈیو جاری ہوئی تھیں، فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اورپھرسزا ہوئی ۔ سیاسی قیادت کے مطابق وہ سیکڑوں پاکستانیوں کا قاتل ہے، بھارتی بحریہ کا حاضر سروس کمانڈر ہے، را کے لئے کام کرتا ہے، اسے بھارتی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ کلبھوشن نے عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی اس لئے اُس کی رہائی کا کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے این او آر کیسے ممکن ہے؟ اُسے بھارت کو واپس کرنا پاکستان کے مفاد میں کیسے ہو گا؟ عوامی، ملکی اور عالمی سطح پر ایسے کسی فیصلہ کا دفاع کیسے کیا جائے گا اور کون کرے گا؟ بحیثیت ملک و قوم پاکستان کی کیا عکاسی ہوگی؟
نواز شریف پر کلبھوشن کے معاملے میں منہ بندی کا واویلا کرنے والے آج منہ کھول رہے ہیں اور دبے لفظوں اس کی رہائی کی باتیں کر رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ کس کی ترجمانی کر رہے ہیں ؟کسے خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟
دہشت گردی سے متعلق اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے خلاف بھارت کی سرزمین سے چلائے جانے والے نیٹ ورک کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان سے بھی کام کر رہا ہے۔ اس میں کالعدم ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار ،داعش اور’’ را ‘‘ سب ہی شامل ہیں۔ انڈین کمانڈر کلبھوشن بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا اور پاکستان نے عالمی سطح پر یہ چیز اجاگر بھی کی، یہی ثابت کیا گیا کہ ثبوت خود بولتے تھے قاتل کہتا ہے’’ میں قاتل ہوں‘‘۔ دہشت گرد کہتا ہے ’’ میں نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں، سلیپر سیلز کو متحرک کیا‘‘تو پھرکلبھوشن کو چھوڑنے کی باتیں کیوں کی جار ہی ہیں؟
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com