5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکلز 35 اے ،370 اور اس سے متعلقہ تمام آئینی سہولتیں واپس لے کر جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی۔ جموں و کشمیر کو 2 یو نینزمیں تقسیم کر دیا گیا اور دعویٰ کیا کہ اس عمل سے پاکستانی اور مقامی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے گا، علاقے میں ترقی کا نیا دور شروع ہو گا اور جمو ں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے میں آسانی ہو گی۔ لیکن ایک سال کے سخت لاک ڈاؤن نے ثابت کیا کہ کشمیری بھارت سے مزید بدظن ہو گئے، آزادی کی خواہش جنون بن گئی جبکہ علاقے کی معیشت تباہ ہو گئی۔
کشمیری صدیوں سے اپنے مقامی وسائل کے بل بوتے پر امن و خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں کی معیشت کا دارومداردست کاری، باغبانی اور سیاحت پر ہے اور یہ تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد 120 دنوں میں علاقہ کی معیشت کو 18 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ،5 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں ختم ہوئیں۔ یہ سب علاقے میں پابندیوں کے نتیجے میں ہوا۔نقصا نات کا تخمینہ جموں و کشمیر کی 2017-18 کی جی ڈی پی کی بنیاد پر لگایا گیا۔ جو دس اضلاع میں مقیم 55 فیصد کشمیری آبادی کے جائزہ پر مشتمل ہے۔
سیاحت جو کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کو لاک ڈاؤن سے بہت نقصان پہنچا۔ لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی علاقے میں موجود ہزاروں غیر مقامی سیاحوں کو علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا جبکہ بعد میں بھی سیاحوں کے لئے یہاں آنے پر مکمل پابندی رہی۔ اس کے اثرات ٹور آپریٹرز سے لے کرہوٹل اور ٹورگائیڈ کے ساتھ پونی پر سیر کروانے والوں، رافٹنگ گروپس اور فوٹو گرافر تک پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ وادی میں 3 ہزار ہوٹل ہیں جو ایک سال سے خالی پڑے ہیں۔ سری نگر کی مشہور ڈل جھیل میں تقریباً ایک ہزار شکارے خالی پڑے ہیں۔ ہر شکارے کی دیکھ بھال کے لیےً سات ہزار ڈالر سالانہ چاہیے ہوتے ہیں اور بہت سے افراد کے لیے یہ واحد ذریعہ معاش ہے لیکن ایک سال سے یہ سلسلہ بھی بند ہے۔
کشمیر کے تین لاکھ سے زیادہ ہنرمند چھوٹے بڑے پیمانے پر دست کاری کے کاموں سے منسلک تھے اورعلاقے کی معیشت کو سہارا دیتے تھے،اب یہ افراد بے روزگار ہیں، اُن کی گاہک تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ چیمبر کی رپورٹ کے مطابق اس صنعت کو2520 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔ مالی اداروں سے قرض لینے والے شرائط پوری نہ کر سکنے اور وقت پر ادائیگی نہ کرنے سے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔ مواصلات اور انٹرنیٹ کی سہولتوں تک محدود رسائی نے بھی سیاحت اور متعلقہ صنعتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
ایسا ہی حال کاشت کاری اور باغبانی سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہے۔ سیب، خوبانی، بادام اور اخروٹ کی پیداوار کو سنبھالنے پیک کرنے اور منڈیوں تک پہنچانے کے تمام تر عمل میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں سے نہ صرف پھلوں کا نقصان ہوا بلکہ اُجرت پر کام کرنے والے بھی بری طرح سے متاثر ہوئے۔ سیب کشمیر کی معیشت کا 12 سے 15 فیصد حصہ ہے لیکن اس سال آدھے سے زیادہ پھل درختوں سے اتارے ہی نہیں گئے۔ کشمیر کی 44لاکھ لیبر فورس کا 32 فیصد تجارت اور 7 فیصد ٹرانسپورٹ سے منسلک ہے۔ کورونا وائرس کے باعث بھی آمد ورفت اور ترسیل پر پابندیوں نے ان افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جبکہ صدر کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش سے40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
متنازعہ کشمیر میں لاک ڈاؤن نا صرف ان افراد کو متاثر کیا بلکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے بھی بے روزگاری کا ایک طوفان اُمڈ آیا ہے۔ ملازمتوں کے حالات پہلے بھی اچھے نہیں تھےاوپر سے غیر کشمیریوں کو سرکاری ملازمتوں میں ترجیح دی جا نےلگی ہے۔ بھارت کی سست روی کی شکار معیشت کے اثرات جموں و کشمیر کی لیبر فورس پر 2019ء میں ہی نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں یہاں بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد تھی۔اگست 2019 کے لاک ڈاؤن، کاروبار کی بندش اور نئی ملازمتوں کی حکومتی پالیسی کا نہ ہونا کشمیریوں کے لئے مسائل بڑھا رہا ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق کویڈ 19 کے لاک ڈاؤن نے جموں و کشمیر کو مئی تک اضافی 13 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ یہ سب جموں وکشمیر کی ٹوٹل جی ایس ڈی پی کا تقریباً 17 فیصد ہے۔
معیشت کی اس بدحالی سے نکلنے کے لیے سیاسی استحکام اور بڑے پیمانے پر حکومتی توجہ اور دلچسپی کی ضرورت ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے اور نئی سرمایہ کاری کے لیے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہو گی۔ جموں وکشمیر کی انتظامیہ لاک ڈاؤن کے ایک سال بعد علاقہ میں نظم و نسق، صحت، تعلیم، سماجی بہبود کے ساتھ معاشی بحالی کے منصوبے لے کر آئی ہے جن میں 168 ایم اُو یو پر دستخط ہوئے ہیں اور 5 ہزار ایکڑ سرکاری زمین کو 37 انڈسٹریل اسٹیٹس کے لئے الاٹ کیا گیا ہے تاہم ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی وقت لگے گا۔
شہزاد اقبال