دنیا میں نت نئی سیاست کی سیاسی جہتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کبھی کرکٹ ڈپلومیسی ، تو کبھی ماسک ڈپلومیسی اور کبھی نیوکلیئر ڈپلومیسی۔ تاہم ان ڈپلومیسیوں میں نقشہ ڈپلومیسی شاید سب سے بلند مقام پر فائز ہو جائے کیونکہ نقشہ ڈپلومیسی ںہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے کئی ممالک میںکھیلی جارہی ہے۔ دنیا کے اسی رنگ میںپاکستان نے بھی خود کر رنگ کر نیا سیاسی نقشہ جاری کر دیا ہے جس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
جنوبی ایشیا سے قبل اگر فلسطین کی بات کی جائے تو بے جا نہ ہوگا جس کے نقشے کو گوگل اور ایپل نے دنیا کے نقشے سے غائب کرکے اس کو اسرائیل کا حصہ دکھا کر اسرائیلی ریاست کے مفادات کا تحفظ کیا۔ درحقیقت فلسطینی نقشے کو غائب کرنے کا مقصد تاریخی اور زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ گوگل نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے یا کسی اور وجہ سے تاہم یہ بات واضح ہے کہ گوگل اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطین کی نسل کشی کی سازش میں شریک ہورہا ہے۔
جنوبی ایشیا کی سیاست میں بھارت وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر پڑوسیوں کا حصہ ہڑپ بالجبر ہڑپ کیا۔ تاہم پڑوسی ممالک نے اس کا جواب یوں دیا کہ بھارتی مقبوضہ علاقوں کو نئے نقشوں میںاپنا حصہ ظاہر کیا۔ اس کی حالیہ مثال نیپال ہے جس نے حال ہی میں نظرثانی شدہ نقشے میں لیمپیادھورا، لیپولیخ اور کالاپانی کے علاقوں کو اپنا حصہ ظاہر کیا ہے۔ یہ علاقے اس وقت بھارت کے قبضے میںہیں لیکن نیپال بھی ان پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے
نیپالی وزارت نے محکمہ پیمائش سے کہا ہے کہ نیپال کے نئے نقشے کے تازہ ترین ورژن کی چار ہزار کاپیاں انگریزی زبان میں چھاپ کر بین الاقوامی برادری کو بھیجیں۔ محکمہ پیمائش اس سے قبل نئے نقشہ کی 25 ہزار کاپیاں پہلے ہی پورے ملک میں تقسیم کر چکا ہے۔ صوبائی اور دیگر تمام سرکاری دفاتر کو یہ کاپیاں مفت دی جائیں گی۔۔ کھٹمنڈو کا یہ اقدام نئی دہلی کے لیے ایک جھٹکا تھا جس کے پہلے ہی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔
بھارت ابھی اس جھٹکے سے نہیں سنبھلا کہ آج پاکستان نے بھی بھارتی مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کر کے نیا نقشہ جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنا حصہ بنا ڈالا تھا تاہم پاکستان کی تمام تر سفارتی کاوشوں کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اقوم متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھارت کی اس ہٹ دھرمی اورکشمیر پر بزور قوت قبضے پر خاموش ہین۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کا یہ قدم اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ سرکاری نقشہ پاکستان کی تمام سرکاری عمارات ،سفارت خانوںاور ویب سائٹس پر موجود رہے گا اور کشمیر عالمی سطح پر موضوع بحث بنا رہے گا۔دوسری طرف بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنے نقشے میںشامل کرتا ہے اور ایک طویل عرصے سے بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ گردانتا ہے۔
پاکستان کے اس عمل سے یقینا بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی میں شدید اضافہ ہوگا اور ممکن ہے کہ دونوںممالک کے مابین سفارتی تعلقات کا ایک مرتبہ پھر خاتمہ ہو جائے۔ مزید یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت اب گلگت بلتستان کو بھی اپنے نقشے میںشامل کرلے جس سے دونوں ممالک کے مابین سرحدی کشیدگی اور جنگ کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
تاہم پاکستان کو چاہیے کہ اس نقشے کو اقوام متحدہ میں منظوری کے لیے فورا بھجوا دے۔ اس سارے عمل میںیہ بھی دیکھنا ہے کہ عالمی برادری اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کے موقف اور نئے نقشے کے بارے میںکیا رویہ اپناتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور عالمی ادارے پاکستان پر نقشہ واپس لینے کے لیے دباو ڈالیں؟ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس معاملے پر بین الاقوامی دباو برداشت کر سکے گا؟ اگر پاکستان نئے نقشے پر ڈٹ جاتا ہے تو بھارت کی مشکلات میںاضافہ ہو جائے گا اور مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پر دنیا کے ایجنڈے پر وہی اہمیت اختیار کر لے گا جو اس مسئلے کے آغاز پر تھی۔