ملا نصر اللہ کمال کے آدمی تھے، جتنا انھوں نے کام نہیں کیا اس سے زیادہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے نیا کام بنا دیا۔ جو سوشل میڈیا عمران خان کو ایلکشن جتوا سکتا ہے، جون ایلیا کو ژندہ کر سکتا ہے،غالب کے نئے دیوان بنا سکتا ہے
،بزدار کو سپر ہیرو بنا سکتا ہے، اس سوشل میڈیا نے ملا نصر اللہ کو بھی نہلا دھلا کر نیا کا نیا کر دیا ۔ ملا نصر اللہ کی بیوی انھیں روز بتاتی ہو گی کہ آ پ کو بھی سوشل میڈیا نے وزیر اعظم بنا دیا ہے ۔
ایک مشہور سوشل میڈیا سائٹ پر لکھا تھا کہ ایک دن ملا نصر اللہ ایک باغ سے گزر رہے تھے ۔ سوشل میڈیا کا حوالہ اس لیے دیا کہ کہیں مجھ پر توہین سوشل میڈیا نہ لگ جائے ۔ سائٹ کے مطابق ان کی نظر ناریل کے درخت پر اسی طرح پڑی جیسے تحریک انصاف کی نواز شریف پر پڑتی ہے ۔۔ کیونکہ جتنی بار عمران خان نواز شریف کو یاد کرتے ہیں اتنی بار عوام کو یاد کرلیتے تو ہم پانی کی بجائے چینی سے نہا رہے ہوتے۔ ملا نے فورا سوچا کہ اس ناریل کو ایسے ہی توڑ دیا جائے جیسے نواز شریف کے پلیٹ لیٹس ٹوٹ گئے تھے۔ پلک جھپکتے ہی ناریل کے درخت پر چڑھ گئے جیسے کوئی کنٹینر ہو ۔ ناریل کو کھینچنے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ یہ تو فوج کی طرح مضبوط ہے ۔
کھنچتے کھینچنے پسینے چھوٹ گئے ۔ لیکن ناریل ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ایک ہاتھ سے ناریل کو کھینج رہے تھے اور دوسرے سے درخت کو پکڑا ہوا تھا ۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ڈیل کرے یا ڈھیل دے۔ مگر ملا نصر اللہ نے بھی نعرہ لگا دیا ” ناریل کو عزت دو” اور ناریل سے لٹک گئے ۔ مگر ناریل بھی مضبوطی سے لگا تھا۔ جی ٹی روڈ کے سفر کی طرح انھوں نے بھی ناریل اور درخت کو خوب سنائی مگر ساری ہوا نکل گئی۔
اب ناریل کی منت سماجت کرنے لگے کہ اللہ کا واسطہ اسے جانے دے۔ مگر لٹکے ہوئے آ دمی کی کون سنتا ہے ۔ اب مدد کے لئے چلانے لگے ۔ بچاؤ بچاؤ مجھے ہزاروں بیماریاں ہیں۔ لیکن ناریل کو بھی نہیں چھوڑ رہے تھے۔
اتنی دیر میں وہاں سے ایک اونٹ سوار گزرا جب اس نے دیکھا کہ ملا نصر اللہ درخت پر مدد کے لیے پکار رہے ہیں تو وہ فورا اونٹ کی گردن تک چلے گئے ۔اونٹ والے نے مولانا فضل الرحمان کا حال نہیں دیکھا تھا اس لیے فورا ملا کی ٹانگیں پکڑی اور ملا سے کہا کہ آہستہ آہستہ ناریل کو چھوڑ دے ۔ ملا نے سوچا کہ اتنی محنت سے ناریل ہاتھ لگا اسے کیسے چھوڑ دوں ۔ اسی سوچ میں تھے نیچے سے اونٹ والا شیخ رشید کی طرح چلا رہا تھا کہ ناریل کو جانے دے۔ تم نیچے آ جاؤ ناریل پھر توڑ لینگے مگر ملا نصر اللہ کی ایک ہی ضد تھی ناریل کو نہیں چھوڑوں گا ۔ اب یہ ناریل تھا یا کرسی ۔ ؟
اسی کشمکش میں اونٹ کو بھوک لگی اور وہ نیچے سے کھسک گیا ۔ جیسے الطاف حسین کے نیچے سے پوری متحدہ کھسک گئی ہو۔ اب منظر یہ تھا کہ ملا ناریل سے لٹک رہے تھے اور اونٹ والا ملا کی ٹانگوں سے۔
ملا نے چلانا شروع کر دیا کہ ایک تو ناریل نہیں ٹوٹ رہا اور اوپر سے میری ٹانگوں کے ساتھ تم چپک گئے ہو۔ ملا بھی بلکل عمران خان بن گئے ایک تو حکومت چل نہیں رہی لیکن ناریل کو پکڑ کر رکھنا ہے اور دوسری طرف پیروں سے وزیر ،مشیر اور اتحادی چپک گئے ۔۔ دوسری طرف اونٹ والا اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر نیا پاکستان بنانے آیا تھا اب دھوکا دینے کا الزام سہہ کر بیٹھ گیا۔ گالیاں الگ سن رہا ہے ۔
جب دونوں نے ایک دوسرے کو کوس لیا تو اونٹ والے نے کہا کہ ملا ناریل کو مت چھوڑنا ورنہ ہم دونوں گر جائینگے ۔ ہم دونوں مر جائینگے ۔اس نے ملا کو لالچ دی کہ میں تمھیں ہزاروں اشرافیہ ،شہد دونگا ۔ ملا نے سوچا کہ اس طرح تو وہ فورا امیر ہو جایینگے اور انھوں نے خوشی سے قہقہہ لگایا ،جھومنے لگے اور ہاتھ چھوڑ کر تالی بجانے لگے۔ ناریل تو اپنی جگہ رہا لیکن ملا اور اونٹ والا دونوں نیچے گر گئے۔
یہ کراچی کا ناریل اپنے مسائل کے ساتھ ایسے ہی لٹکا ہوا ہے ۔ پانی کاندھے تک آ جائے ، گولی سینے میں لگی ہو، گرمی سوا نیزے پر ہو، مگر اپنی مستی میں مست رہتا ہے ۔ دو دن بعد سب بھول کر گٹکے کی پچکاری سے زمین رنگین کر دیتا ہے ۔ کبھی کوئی اس کے ساتھ لٹکتا ہے اور کبھی کوئی اس کے ساتھ جھولتا ہے ۔ سب کو اسے چکھنا ہے ۔ لیکن یہ ٹوٹتا ہی نہیں ہے ۔ کبھی زبان تو کبھی فرقہ کو اس کے ساتھ لٹکایا گیا ۔ کمال یہ ہے کہ اتنے لوگوں کے لٹکنے کے بعد بھی یہ گرا نہیں ہے ۔ حکومت کو کسی سیانے سے پوچھ کر اب کسی نئے کو لٹکانا چاہیے تھا ۔ مگر کیا کرے ہمارے وزیر اعظم صاحب کا، جو ہمیشہ وہ فیصلہ کرتے ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ لٹکے ہوئے رہتے ہیں ۔
کراچی کا ایک بڑا حصہ ویسے ہی کنٹونمنٹ ہے اب باقی کو بھی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ کراچی میں فوج اور سیاست دانوں کا معاملہ ملا اور اونٹ والے جیسا ہے ۔ کبھی سیاست دان ناریل سے لٹکے ہوتے ہیں تو کبھی فوج ۔ کبھی سیاست دان یہاں فوج بلاتے ہیں اور کبھی کوئی نامعلوم مصطفی کمال کو لے آ تا ہے ۔ وہ بھی بغیر ہتھیار کے ۔ اس ناریل سے سب لٹکے گے اور سب گرے گے ۔ کوئی کسی کی ٹانگ پکڑے گا اور کوئی ہاتھ تھامے گا۔ لیکن سب ایک دوسرے کو کھینچیں گے اور ناریل لٹکا ہوا ہی رہے گا۔ پورا کراچی ڈوبا ہو گا، دو تصویریں لگا کر بتایا جائے گا کہ ہم نے کراچی فتح کر لیا ۔۔۔۔ اور کہوں گا تو میں بھی لٹک جاؤنگا۔ اس لیے میں چلا نیا گانا سننے آپ لٹکے رہیں
انیس منصوری معروف صحافی ہیں ۔ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی سے وابسطہ ہیں