عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلق کے قیام کو تاریخی بریک تھرو قرار دیا جارہا ہے تاہم دونوںممالک کے مابین ہونے والا یہ معاہدہ بہت ساری خامیوں سے بھرپور ہے۔ وہ کام جسے کچھ عرصہ قبل ناممکن قرار دیا جارہا تھا بالاخر انجام پا گیا ہے، عرب امارات نے فلسطین کی سرزمین سے اسرائیل کی دستبرداری کے دیرینہ مطالبے کو پس پشت ڈال کر بالاخراسرائیل کو تسلیم کرلیا۔
یہ ڈیل بنیادی طور پر امریکہ نے طے کروائی ہے پانچ سال سے خفیہ تعلقات اور نگرانی اور جاسوسی جیسے معاملات میں ایک دوسرے کی خفیہ مدد کے بعد اسرائیل اورعرب امارات نے اب علانیہ طور پر اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔
یو اے ای اور اسرائیل نے اس معاہدے کو مشرق وسطی میںامن کا آغاز کہا ہے تاہم پردوں کے پیچھے کیا معاملات طے پائے ہیں ابھی تک ان کا کوئی علم نہیں اور ممکن ہے کہ سیاسی، سفارتی اور معاشتی تعلقات کی بحالی کے لیے روڈ میپ طے کرنے میںکئی ہفتے اور مہینے لگ جائیں۔
بہر کیف ہر صورت میںاماراتی ور اسرائیلی رہنماؤں کے اس معاہدے سے متعلق بیانات تضادات کا مجموعہ ہیںاور چند ایک تضادات درج ذیل ہیں۔
1۔ کیا اسرائیل فلسطین کے الحاق سے مکمل دسبردار ہو گیا ہے؟
اس معاہدے کا ایک اہم پہلو فلسطینی اتھارٹی کے الحاق سے متعلق ہے۔ متفقہ اعلامیے میںکہا گیا ہے کہ "اسرائیل فلسطینی لوگوںکی ملکیت مغربی کنارے کے علاقے کی مکمل خود مختاری کے اعلان کو عارضی طور پر روک دے گا "۔
اس اعلامیے کے فوراً بعد یو اے ای کے امیر محمد زید بن النیہاں نے کہا کہ اسرائیل الحاق کے منصوبے سے دسبردار ہو گیا ہے اور صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہوکے ساتھ فون پر بات چین میں یہ بات طے پا گئی ہے اسرائیل فلسطین سرزمین کو ہڑپ کرنے کے سلسلے کو بند کر دے گا۔ عرب امارات اور اسرائیل باہمی تعاون اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے روڈ میپ کے بنیاد رکھنے پر بھی مفق ہوئے۔
تاہم زید بن النیہان کے بیان کے فورًا بعد نتین یاہو نے واضح کر دیا کہ الحاق کے عمل کو واشنگٹن کی درخواست پر عارضی طور پر روکا گیا ہے یہ منصوبہ تاحال اسرائیل کے ایجنڈے پر اولین حیثیت رکھتا ہے۔
ںنتین یاہو نے قدامت پسند ووٹرز کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے الحاق کے منصوبے کو اپنی انتخابی مہم کو اہم جزو قرار دیا ہے۔ گو کہ نتین یاہو کے اس منصوبے پر بہت زیادہ تنقید ہوئی ہے تاہم وہ اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میںالحاق کا مطلب فلسطین کی سرزمین کا سرکاری طور پر اسرائیل کا حصہ بننا ہے اور فلسطین کے وجود کا خاتمہ ہے۔
2۔ کیا یہ تعلقات کی مکمل بحالی ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یواے ای اسرائیل تعلقات کی بحالی کو بہت بڑا بریک تھرو قراردیا ہے تاہم زید بن النیہان نے اپنے بیان میں بہت محتاط انداز میں کہا کہ یہ بات چیت باہمی تعاون اور دو طرفہ تعلقا ت کی بحالی کے لیے روڈ میپ طے کرنے سے متعلق ہے۔ نتین یاہو کی طرح زید بن النیہان نے بھی ابتدائی طور اسرائیل کو کھلے بندوں گلے لگانے سے گریز کیا ہے کیونکہ اس سے ممکنہ طور پر عرب دنیا میں یو اے ای کو شدید رد عمل کا سامنا ہو سکتا تھا۔ مسلمانوں کی نسلیں اپنے رہنماؤن کے یہ وعدے سن سن کر جوان ہو گئی ہیں کہ وہ کبھی فلسطین پر سودا نہیںکریں گے۔
ڈونللڈ ٹرمپ اور نتین یاہو اس صورتحال کو آنے والے الیکشن میں عوام کی رائے کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
3۔ ڈیل کی ضمانت کیا ہے؟
نتین یاہو کو اسرائیل میں بحران کا سامنا ہے۔ کرونا وبا کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے اس کی حکومت شدید تنقید کی ذد میں ہے اور رائے عامہ سے یہ بات واضح ہے معاشی فلاح وبہبود ان دنوں اسرائیل کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اپنی سیاسی مہموں میں نین یاہو الحاق کو مسلسل یہودی آبادکاروں اور قدامت پسندوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اگر اس نومبر میں نتین یاہو ایک اور الیکشن کی طرف بڑھتا ہے تو وہ یقینا اپنی بقا کےلیے الحاق کو عرب امارات سے ڈیل پر فوقیت دے گا۔
دوسری جانب عرب امارات نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ الحاق دراصل فلسطینی زمین پر ناجائز قبضے کا نام ہے اور اگر تل ابیب اپنے منصوبے کو جاری رکھتا ہے تویہ خطے کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو گا۔
4۔ فلسطینی ریاست کا کیا بنے گا؟
تاریخی طور پر 1967 کی جنگ میںعرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کو یہودی آبادکاروں سے مکمل صفائی سے مشروط کیا تھا۔ امارتی رہنما اس ڈیل کو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے یہ فلسطین کے لیے سود مند ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ فلسطین سے متعلق اپنے ابتدائی وعدوں سے مکمل طور پر پھر گئے ہیں۔یہ حیران کی بات نہیں ہے کہ اس موقع پر نین یاہو نے کہا ہے کہ ” امن کے بدلے امن” نہ کہ مقبوضہ سرزمین کے بدلے امن”
اسرائیل پہلے ہی مقبوضہ مغربی کنارے، دریائے اردن کی مغربی اطراف اور زرخیز وادی اردن کو اسرائیل کا حصہ بنا چکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں70،000 یہودی آباد کار مقبوضہ فلسطین پر اپنے گھروں کی تعمیر کر چکے ہیں اور یہاںاپنا کاروبار جما چکے ہیں۔ مغربی کنارے میں قریبا 5۔2 ملین عرب آباد ہیں اور اب بین الاقوامی انتباہ کے باوجود نتین یاہو اس حصے کو بھی اسرائیل کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں۔
تمام تر صورتحال سے یہ بات واضح ہے کہ اس ڈیل میں اسرائیل سب سے زیادہ فائدے میں رہا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ کسی خلیجی ملک نے اسے تسلیم کیا ہے جبکہ اپنی طرف سے اسرائیل نے الحاق کو روکنے کا ایک کمزور سا وعدہ کیا ہے جو پہلے ہی ایک غیر قانونی فعل تھا۔