شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تاریخی گراوٹ اور بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں۔ شاہ محمود کا بیان ابھی رستے میں ہی تھا کہ سعودی عرب نے گاؤں کے چوہدری کی طرح میراثی کو فورا سارا قرضہ اور بیاج واپس کرنے کا حکم دے دیا اور میراثی بیچارہ چارہ نا چار اپنے دوست کے پاس پہنچا اور مدد کی اپیل کی۔ دوست بھی چونکہ سارے واقعہ سے آگاہ تھا اور چاہتا تھا کہ اس کا میراثی دوست اب چوہدری کے پنجوں سے نکل آئے اس لیے جھٹ سے پیسے نکالے اور میراثی سے کہا کہ جا کہ چوہدری کے منہ پہ دے مارے۔ چوہدری کو یہ بات بھی بہت ناگوار گزری کہ میراثی ک دوست اس کی چوہدراہٹ کے خاتمے کے درپے ہے اور پھر سوچا کہ کیوں نہ اس دوستی کا ہی خاتمہ کر دیا جائے۔
بات صرف میراثی کو پیسے دینے کی ہوتی تو تب بھی چوہدری صاحب برداشت کر لیتے مگر اس دوست نے چوہدری کے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ کاروبار اور سرمایہ کاری کا عندیہ بھی دے دیا جس سے چوہدری صاحب مزید غضبناک ہوگئے اور میراثی کو حکم صادر کیا کہ اپنے اس دوست اور اس کے حالیہ معاہدوں سے دور رہو ورنہ ہمارے ہاں کام کرنے والے 26 لاکھ گھر بھی پہنچ سکتے ہیں۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ چوہدری کو اصل غصہ شاہ محمود قریشی کے بیان کا نہیں بلکہ میراثی اور اس کے دوست کے نئے بلاک کا ہے۔
ہی وجہ ہے کہ چوہدری کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم سطح پرلائے، ان تعلقات میں جو گرم جوشی ہے، اس کو کم کیا جائے۔ اور تو اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں چین کی حمایت نہ کی جائے، خاص طور پر جو حالیہ سرحدی جھڑپیں چین اور بھارت کے درمیان ہوئیں، ان میں پاکستان چین کو بالکل اکیلا چھوڑ دے، جو کہ پاکستان کے لئے قطعاً ممکن نہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین کی ایران میں جو 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے، اس میں پاکستان کسی بھی طرح کی معاونت نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کو بھول کر بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کا بھی کہا جا رہا ہے۔
اس وقت سعودی عرب کا جو تحکمانہ انداز ہے وہ خاصہ غیر روایتی ہے اور یہ کسی بھی طرح سفارتی طریقہ کار نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ مطالبات دراصل سعودی عرب کے نہیں بلکہ امریکہ کے ہیں، اور سعودی عرب سے صرف پاکستان کو یہ کہلوایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ تو دیا نہیں لیکن ایک نئی مطالبات کی فہرست لا کر پاکستان کے آگے رکھ دی ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان سے جس یک ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، وہ پاکستان نے چین سے لے کر ہی سعودی عرب کو فراہم کی تھی۔
تاہم اب پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے کہ وہ سعودی عرب کو کیا جواب دیتا ہے۔ اصل معاملہ چین ایران تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی پاکستان چین تعلقات ہیں بلکہ امریکہ چاہتا ہے کہ کسی طرح پاکستان چین تعلقات میں دراڑ پیدا کر کے سی پیک کو رول بیک کروایا جائے ۔ یہی وہ مشن ہے جس کے لیے اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی کا کام شروع کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اگر پاکستان سخت مؤقف اختیار نہیں کرتا تو پھر تا قیامت چوہدری کے پاؤں دباتا رہے گا اس لیے یہ بہترین موقع ہے کہ چوہدری کوہمیشہ کے لیے خیر با د کہہ کر پاکستان کی خارجہ پالسی کو آزاد کرایا جائے۔