سیاست کی بات میں جب بھی مولانا کا ذکر آئے تو یہ بات طے ہے کہ مولانا سے مراد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔ سیاست بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے ایک وقت تھا مولانا صاحب اس زعم میں مبتلا تھے کہ ’ان کے بغیر حکومت بنے گی نہیں اور اگر بنی تو حکومت چلے گی نہیں‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ مولانا جلے پیر کی بلی کبھی ن لیگ کے در پہ پہنچتے ہیں تو کبھی پیپلز پارٹی کی دہلیز پر ماتھا ٹیکتے دکھائی دیتے ہیں۔ 1997 سے لے کر 2018 تک کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ بننے والے مولانا کو اقتدار کا چسکا ایسا لگا کہ اب جاتا ہی نہیں اور مولانا کو اقتدار آتا دکھائی دیتا نہیں۔
پی ٹی آئی نے جب سر اٹھانا شروع کیا توعمران خان کو سب سے پہلے یہودی ایجنٹ کا لقب دینے والے بھی مولانا ہی تھے اور یہی وجہ ہے کہ 2013 کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف مقبول سیاسی جماعت ابھر کرسامنے آئی تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پارٹی قیادت کو تمام سیاسی جماعتوں سے حکومت بنانے کے لیے رابطے کرنے کی ہدایت کی ماسوائے جے یو آئی ف کے۔ جس کے بعد تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے درمیان خلیج میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔
مولانا نے خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں سے رابطے بھی کیے لیکن صوبے میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل مولانا نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر اکٹھا کیا اور متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے ساتھ عام انتخابات میں اترے۔ لیکن 2018 کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیاب نہ ہوسکے اور پارلیمانی سیاست سے باہر ہو گئے۔
انتخابی نتائج کے فورا بعد ہی مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اور تمام اپوزیشن جماعتوں سے اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کا مطالبہ کیا لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کی یہ تجویز مسترد کر دی۔ صدارتی انتخاب کا وقت آیا تو مسلم لیگ اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو متفقہ صدرارتی امیدوار نامزد کیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کی بطور صدارتی امیدوار مخالفت کی اور اعتزاز احسن کو تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا صدر منتخب ہو گیا۔
اس کے بعد مولانا نے گزشتہ برس کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ۔ کل جماعتی کانفرنس بھی ہوئی مگر حکومت کو ہٹانے پر اتفاق نہ ہوسکا۔ تنگ آ کر مولانا نے حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان کر دیا۔ حکومت کے خلاف یہ دھرنا تیرہ دن جاری رہا مگر نتیجہ ندارد۔ بعد میں مولانا صاحب نے پول کھولے کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ چھ ماہ کے اندر اندر حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ مولانا نے یہودی ایجنٹ کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں اور ایک مرتبہ اے پی سی کی کوششیں شروع کر دیں مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے پھر ٹکا سا جواب پا کر خاموش ہوگئے۔
اسی اثنا میں بین الاقوامی سطح پر اور پاکستان کی سفارتی سطح پر ایک نئی ہلچل مچ گئی۔ شاہ محمود قریشی کے بیان نے سعودی بادشاہ اور شہزادے کو کھلے بندوں للکار دیا، عرب حاکموں کو عجمی غلاموں کا یہ انداز کچھ زیادہ پسند نہ آیا اور بھائی چارہ دھڑام سے بے چارہ بن کر رہ گیا۔ ابھی یہ معاملا ت ادھورے تھے کہ مولانا کے عرب نظریاتی دوست و مالی سہولت کاروں میں سے ایک ملک نے یہودی ریاست کو تسلیم کر لیا۔ مولانا اس جھٹکے سے شاید ہی سنبھلے تھے کہ سعودی سفیر یر نواف سعید المالکی ان سے ملاقات کو آن ٹپکے۔ مولانا کی رال بہنے لگی کہ شاید عمران خان کو اب لات مار کر انہیں مسند شاہی عطا ہو مگر ایسا نہ ہوا۔
بعض لوگوں کے خیال میں سعودی سفیر نے پاکستان اور سعودی تعلقات کو دوبارہ ڈگر پر لانے کے لیے مولانا سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی مگر حقیقت حال مکمل مختلف نظر آئی۔ سنا ہے کہ سعودی سفیر نے مولانا سے درخواست کی ہے کہ اگر وہ امارات کے بعد اہل یہود کے ساتھ مل کر تلواروں کا رقص کرنا چاہیں تو انہیں پاکستان سسے مذہبی مدد مل سکے گی اور کیا مولویوں کے منہ پہ تالا لگایا جا سکے گا اس ضمن میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔
مولانا نے جب یہ بات سنی ہے تب سے سکتے میں دکھائی دیتے ہیں، ایک تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بے وفائی نے انہیں آدھا نہیں چھوڑا، دوسرا حکومت جانے کی خبروں میں کہیں صداقت نہیں دکھتی اور تیسرا مولانا اس سوچ میں محو ہیں کہ اگر ان کے سعودی سرپرستوں نے یہودی ریاست کو تسلیم کر لیا تو وہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کیسے کہیں گے؟ لگتا ہے اس بار مولانا کا دکھ واقعی بہت سنجیدہ ہے۔
تحریر: ٹی اے ایف
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com