تاریخ انسانی میں جہاں انسان کے مہذب ہونے کے بارے میں بہت سارے دلائل موجود ہیں وہیں بہت سارے واقعات ایسے جنم لیتے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان بنیادی طور پر وحشی اور ظالم ہے۔ تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ معاشرے میں اچھے لوگ نا پید ہوگئے ہیں یا کسی بھی معاشرے میں سبھی لوگ ظالم اور وحشی ہیں۔ اگر انسان کے ظالم اور بے رحم ہونے میں کوئی شبہ نہ پایا جاتا تو کسی بھی معاشرے کے لیے قوانین ضوابط بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ یہ قوانین و ضوابط دنیا کے مہذب معاشروں کے لیے بھی اسی طرح ہیں تاہم مہذب معاشروں میں بھی بسا اوقات ایسے واقعات جنم لیتے ہیں کہ انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔
اگر مہذب معاشروں کا یہ حال ہے تو تیسری دنیا کے معاشروں کی کیا کیفیت ہو گی جہاں قوانین و ضوابط کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں ۔ ان معاشروں میں بہت سارے اسلامی ممالک بھی شامل ہیں اور ان میں شاید پاکستان سر فہرست ہے جہاں اس حوالے سے بجا طور پر جنگل کا قانون نافذ ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنی اسلامی اقدار پر اِتراتا نظر آتا ہے مگرحقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کون سی برائی اس معاشرے نے اختیار نہیں کی۔ دو نمبر ادویات سے لے کر ہر چیز میں ملاوٹ، چوری، کرپشن، لوٹمار الغرض زندگی کے ہر شعبے میں دو نمبری۔ تاہم زندگی کے دیگر شعبوں میں یہ دو نمبریاں برداشت کی جا سکتی ہیں مگر جس معاشرے میںاستاد، ایک معلم ، ایک روحانی باپ بھیڑیا بن جائے اور اس کی اپنی ہی بیٹیاں اس کے ہاتھوں بے آبرو ہو جائیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایسا معاشرہ بھیڑیوں کے معاشرے سے بھی بدتر ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں اور خاص کرجامعات میں خواتین طلبہ کا اپنے سپروائزرز اور پروفیسرز کے ہاتھوں استحصال کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے اساتذہ کے روپ میں چھپے یہ بھیڑیے طلبہ کا استحصال کر رہے ہیں اور کئی معصوم طالبات اپنی عزت بچانے کے لیے اپنی جان سے گزر چکی ہیں تاہم یہ بھیڑیے کسی نہ کسی طرح بچ جاتے ہیں ۔ چار دن بعد جب سوشل میڈیا پر جنگ لڑنے والا معاشرہ سوجاتا ہے تو یہ بھیڑیے دوبارہ آزاد ہو کر نئے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ملک میں ایسے بھیڑیوں کے لیے سخت قوانیں کیوں نہیں بنائے جاتے؟
بدقسمتی سے اس وحشی معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں خواتین کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے اور ہر معاملے میں اسے ہی قصور وار گردانا جاتا ہے اور پھر لڑکیوں کی عزت کے بارے میں یہ نام نہاد معاشرہ اس قدر حساس ہے کہ اس کی وحشیانہ پن سے خوفزدہ ہو کر معصوم بچیاں حرف شکایت بھی زبان پر نہیں لاسکتیں اور بالاخر خاموشی سے جان دینے میں عافیت سمجھتی ہیں۔ یا اگر کوئی بہارد بچی اپنی زبان کھول بھی دے تو معاشرہ اس کا جینا حرام کر دیتا ہے۔ اور اس کو ڈرا دھمکا کر چپ کرادیا جاتا ہے اور بعد میں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔
آئے روز ایسے واقعات پاکستانی معاشرے کے ضمیر کو چند لمحے جھنجھوڑتے ہیں، وہ فیس بک اور ٹوئٹر پر احتجاج کرتے ہیں اور پھر مکمل خاموشی اور پھر کچھ عرصے بعد کوئی اور بھیڑیا کسی معصوم طالبہ کی جان لے لیتا ہے اور یہ سلسلہ جانے کب سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں چند روز قبل جامعہ کراچی کی ڈاکٹریٹ کی ایک طلبہ نادیہ اشرف نے اپنے ہی سپروائزر ڈاکٹر اقبال چوہدری کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔ بے شرمی کی حد شاید ختم ہو جاتی مگر جامعہ کراچی جب اقبال چوہدری کی صفائی میں سامنے آ گئی تو بے شرمی کی یہ حد بھی ختم ہوگئی بلکہ اکثر و بیشتر اپنی نام نہاد نیک نامی کو بچانے کے لیے یونیورسٹیاں اس طرح کی خود کشیوں کو ذاتی وجوہ قرار دیتی رہی ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کتنی نادیہ اشرف اس طرح مجبور ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھوتی رہیں گی۔
ایسے واقعات میں ملوث ان بھیڑیوں کے بچاو کے لیے جامعات ہمیشہ سے پیش پیش رہی ہیں۔ 2014ء میں اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز نے جنسی ہراسگی کی ایک شکایت کی تفتیش کے لیے تین رُکنی کمیٹی قائم کی جس میں شامل تمام ارکان مرد تھے۔ مذکورہ کمیٹی میں بعدازاں اس وقت ایک خاتون شامل کرلی گئی جب ملزم نے کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے انکار کردیا۔ الزامات کی زد پر آنے والے پروفیسر کے خلاف صرف یہ کارروائی ہوئی کہ ان سے شعبہ کی سربراہی چھن گئی اور بعدازاں موصوف کو ایک دوسرے شعبے کا سربراہ تعینات کردیاگیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی ہراسگی کے اس معاملے کی تفتیش کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ ان کو کوئی سپروائزی یا شعبہ کے سربراہ کا کردار نہ سونپا جائے۔
قائداعظم یونیورسٹی میں بھی جنسی ہراسگی کے منظرِعام پر آنے والے ایک معاملے کے بعد شعبۂ حیاتیاتی سائنس کے ایک استاد کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جنہیں بعدازاں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے بحال کردیا اور پھر اس بھیڑیے نے جانے اور کتنی معصوموں کی زندگی کو جہنم بنایا ہو گا۔ یہ کسی ایک یونیورسٹی کا واقعہ نہیں بلکہ ملک کی تمام جامعات میں اس طرح کے واقعات آئے روز جنم لے رہے ہیں۔
گزشتہ برس بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طلبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا سکینڈل سامنے آیا تھا جس میں یونیورسٹی اسٹاف کی جانب سے طلبا کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کا انکشاف ہوا تھا۔ ذرائع ایف آئی اے کے مطابق یونیورسٹی کے سیکیورٹی اور سرویلنس سیکشن کے اہلکاروں نے طلبا کو بلیک میل کیا تھا ۔ دوران تفتیش سیکیورٹی برانچ کے ایک افسر اورسرویلنس انچارج کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن سے ہراساں اور بلیک میلنگ کی ویڈیوزبھی برآمد ہوئی تھیں۔ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ بلیک میلنگ کیلئے یونیورسٹی بلاکس میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے۔ اس واقعے کو جس قدر شرمناک قرار دیا جائے کم ہے ۔ تاہم اس واقعے کے بعد معاملات کو خاموشی سے دبا دیا گیا اور پھر وہی شیطانی کھیل شروع ہو گیا۔
اس برائی کی سب سے بڑی جڑ خواتین طلبہ کے لیے مرد اساتذہ کی بطورسپروائزر تعیناتی اور یونیورسٹیوں کا سمسٹر اور گریڈنگ سسٹم ہے جس کی وجہ سے کسی طلبہ کو فیل یا پاس یا اچھے اور برے نمبر دینے کا تمام تر اختیار یونیورسٹی اساتذہ کے پاس ہوتا ہے اور وہ باآسانی طلبہ کو فیل یا برے گریڈ کی دھمکی دے کر بلیک میل کر سکتے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کی طلبہ مرجان کے ساتھ پیش آیا تھا جس میں ایک درندے پروفیسر اجمل مہار نے اچھے نمبروں کا لالچ دے کر اس کو ورغلایا اور نہ صرف اس کے ساتھ خود زیادتی کی بلکہ اس مکروہ فعل میں اپنے دوستوں کو بھی شامل کیا اور اس کو بلیک میل کرنے کے لیے اس گھناؤنے فعل کی ویڈیو بھی بنائی۔ اس بات سے بھی یہاں سمسٹر سسٹم کی خرابی سامنے آتی ہے کہ کس طرح یونیورسٹیوں میں رائج سمسٹر سسٹم گھٹیا شکل اختیار کر گیا ہے کہ شعبہ جات کے ہیڈز اور لیکچررز اپنے سٹوڈنٹس کو پاس کرنے کے لیئے نہ صرف ان سے پیسے بٹورتے ہیں بلکہ ان کی عزتوں سے بھی کھیلتے ہیں اور اس کھیل میں اپنے دوستوں کو بھی شامل رکھتے ہیں۔
حال ہی میں لاہور جیسے بڑے شہر کے ایک مشہور سکول لاہور گرامر سکول میں بھی ایسا ہی ایک سکینڈل سامنے آیا جس میں ایک استاد کو کم از کم آٹھ سے زائد طالبات کو مبینہ طور پر فحش تصاویر اور پیغامات بھیجنے کے الزام میں عہدے سے برطرف کر دیا گیا تاہم سکول کی شہرت پر حرف نہ آئے اس وجہ سے اس سکینڈل کو بھی بااثر شخصیات نے دبا دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہماری معصوم بچیاں ان بھیڑیوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنواتی رہیں گی۔ حال میں میری ایک طالب علم دوست جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی سےایم فل کر رہی تھیں انہوں نے بتایا کہ ان کے سپروائزر جان بوجھ کر ان کے تھیسیز میں تاخیر کر رہے تھے اور وہ گھنٹوں ان کے دفتر میں بیٹھی رہتی تھیں مگر وہ کام نہیں کرواتے تھے اور ٹالتے رہتے تھے ۔ کبھی وہ میرے کپڑوں کی تعریف کرتے تھے اور کبھی میری خوبصورتی کی۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ میرے ساتھ اکیلے میں کچھ وقت گزاریں ۔ یہ سن کر مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے ان کے دفتر میں اپنا جوتا اتار کر ان کا منہ سرخ کر دیا۔ بات جب وائس چانسلر تک پہنچی تو مجھے خاموش رہنے کے لیے ڈرایا دھمکایا گیا تاہم میں اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی اور بالاخر مجھے دوسرا سپروائزر الآٹ کر دیا گیا مگر اس واقعے کے بعد کسی کی ہمت نہیں رہی کہ کوئی مجھ سے ایسی بات کرتا۔
میں نے اس کی ہمت کی داد دی اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایسے معاشرے میں جہاں عورت محض کمزوری کا استعارہ سمجھی جاتی ہیں اور جہاں بدعنوان حکومتیں طاقتوروں کے ہاتھوں مجبور ہوں اور طلبہ کو انصاف فراہم نہ کرسکیں، کیوں نہ ہم اپنی بچیوں کو ان بھیڑیوں کے خلاف یہ کہہ کر طاقتور بنائیں کہ بیٹا کپڑے نہیں جوتی اتارنی ہے۔
مصنف: محمد علی
ایڈیٹیر: ٹی مغل
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com