وزیر اعظم عمران خان صاحب کی حکومت دو سال مکمل کر چکی ہے اور پاکستانی قوم ابھی تک ان دعوؤں کی تکمیل کی راہ تک رہی ہے جو انہوںنے الیکشن سے قبل اور پھر وزیر اعظم بننے کے فورا بعد اس قوم سے کیے۔ ان دعووںمیںسب بڑا دعوی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز کی فلاحی ریاست بنانا تھا جہاںانصاف وقانون کی حکمرانی ہو، ہر غریب کو اس کا حق ملے، صحت اور روزگار کے یکساںمواقع ہوںاور طاقتور قانون سے بالاتر نہہوں۔ یہ دعوے اس قدر خوش کن تھے کہ کرپٹ اور چور حکمرانوںسے عاجز پسی ہوئی عوام نے جوق در جوق عمران خان کو ووٹڈالے تاہم یہ وعدے ابھی تک تکمیل کے مراحل تو چھوڑ بنیاد بھی نہ پکڑ سکے ہیں۔
ایک طویل عرصے تک وزیر اعظم صاحب اس بات پر متفق تھے کہ مہنگائی کر کے اگر معیشت چلانی ہے تو یہ کون سا کمال ہے مگر پھر وہی کمال خود کیا اور ایسا کمال کیا کہ غریب آدمی کی چیخیں نکل گئیں ۔ ریاست مدینہ کی طر ف سے غریب آدمی سے روٹی روزی چھیننی کی بھرپور کوشش کی گئی اور یہ کوشش تا حال جاری ہے۔ وہی چینی جو سابقہ دور حکومت میں60 سے 65 روپے کلو فروخت ہوتی تھی اب 100 روپے کلو کا عدد عبور کرنے والی ہے جبکہ یہی معاملات دیگر اشیائے خورونوش کے بھی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ایک کروڑ نوکریوںکا ہوا ۔ وہی وزیر اعظم صاحب جو کبھی عوام کو روزگار فراہم کرنے کے دعوے کرتے تھے عوام کا روزگار چھیننے پہ لگ گئے ہیںاور اب سرکاری نوکریوںکو ایک لعنت قرار دے کر نوجوان نسل کو پرائیویٹ نوکریاںکرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔
مدینہ ریاست جیسی فلاحی ریاست کے نام پر عمران خان کا کل ’ویژن‘ احساس پروگرام کے نام سے چند خیراتی پروگرام شروع کرنے یا نوجوانوں کے لئے قرضوں کی آزمودہ اسکیمیں نئے نام سے جاری کرنے تک محدود ہے ۔جدید فلاحی ریاست خیرات تقسیم کرنے اور لنگر چلانے کی بنیاد پر کام نہیں کرتی بلکہ اس میں عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں، تعلیم پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، عوامی صحت کے منصوبے ترجیح پاتے ہیں اور بنیادی سہولتوں تک رسائی ممکن بنائی جاتی ہے۔ جدید فلاحی ریاست ضد، مقابلے بازی، انتقام، جبر اور آزادی رائے کو مسدود کرکے پروان نہیں چڑھتی۔
ایسی کسی بھی ریاست میں اختلاف کو صحت مند رویہ سمجھا جاتا ہے اور تنقید سے اصلاح کا درس لیا جاتا ہے۔ جس طرح فلاحی ریاست خیرات بانٹنے کا نام نہیں ہے، اسی طرح ملکی معیشت کی اصلاح یا کامیابی کا واحد پیمانہ قومی بجٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دکھایا جانے والا اور سیاسی بیان کے طور پر پیش کیا جانے والا ’بجٹ خسارہ میں کمی‘ کا نعرہ بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کا اہم ترین اشاریہ یہ ہوتاہے کہ کیا ملک میں قیمتیں مستحکم ہیں، کیا لوگوں کو روزگار کا تحفظ حاصل ہے اور کیا ملک میں نوجوانوں کے لئے کام کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں؟ اگر ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہو تو یقین کیاجانا چاہئے کہ ایسی معیشت صحت مند نہیں ۔
حکومت میں دو سال گزارنے کے بعد جب کسی لیڈر کے پاس کارکردگی کے نام پر کچھ دکھانے کے لئے نہیں ہوتا تو وہ نئے نعرے ایجاد کرتا ہے۔ اب نواز شریف اور آصف زرداری کو گالی دے کر عمران خان کی سیاست چمکنے کا امکان ختم ہوچکا ہے اس لئے مخالف کے طور پر مافیا کا ایک نیا نعرہ ایجاد کیا گیا ہے اوروہ ہے دیانت داری کا نعرہ۔ جو کچھ بھی ہے خان کرپٹنہیںہے؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نیا نعرہ غریب سے غریب تر ہوتی عوام کو روٹی فراہم کر سکتا ہے؟کیا یہ نعرہ مافیا کی طاقت اور بدمعاشی کا خاتمہ کر سکتا ہے؟کیا یہ نعرہ طاقتور کو قانون کے کٹہرے میںکھڑا کر سکتا ہے ؟ کیا یہ نعرہ معاشرے میںقانون و انصاف کی حکمرانی کا بول بالا کر سکتا ہے؟ اگر ان تمام باتوںکا جواب نا میںہے تو پھر خان صاحب دیانت داری کی یہ سند لے کر واپس لوٹ جائیں۔