میدان جنگ میں غلامِ ترکی یہ رجز پڑھا تھا: میرے امیر حُسین ہیں اور وہ بہترین امیر ہیں، جو پیغمبر خُدا کے دل کے چین ہیں اور یہ رجز خوانی بھی کی: میرے نیزے اور تلوار کے واروں سے سمندروں میں حرارت پیدا ہو جائیگی اور فضاء میرے تیروں سے بھر جائیگی، جب میری تلوار میرے دائیں ہاتھ میں چمکے گی تو بڑے بڑے حاسدوں کے دل پھٹ جائیں گے۔ یہ کہہ کر سپاہ دشمن پر حملہ کر دیا، بہت سے اشقیاء کو ٹھکانے لگایا۔ آخرکار آپ پر ہر طرف سے حملہ کر دیا گیا، زخمی ہوکر زمین پر گرے۔ امام عالی مقام آپکے زخمی بدن کے پاس تشریف لائے، اپنا منہ انکے منہ پر رکھ کر خوب گریہ کیا۔ غلام نے اپنی آنکھ کھولی، امام کی پاکیزہ صورت کی زیارت کی اور جان، جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔
حق و باطل کے معرکہ کربلا کو صدیاں بیت گئیں مگر محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی کربلا والوں کا غم تازہ ہو جاتا ہے، دل افسردہ ہو جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کربلا کا واقعہ آج ہی ہوا ہے۔ آیئے اپنے خیالات کو 61 ہجری کے محرم الحرام کی طرف لے جاتے ہیں اور تاریخ کے سفر میں جانتے ہیں لشکرِ امام حُسین علیہ السلام کے دلیر مجاہدوں کی کیا خصوصیات و صفات تھیں اور ہم اُن کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر دورِ حاضر کی کربلا میں اپنے حصے کا کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سبط بن جوزی "تذکرة الخواص” میں رقم طراز ہیں کہ کربلا میں روزِ عاشور امام حُسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 145 تھی، جن میں 45 سوار اور 100 پیادے تھے جبکہ کربلا کے شہداء میں حافظانِ قرآن کی تعداد 6 تھی۔ جن میں نافع بن ہلال، بریر بن خضیر، حنظلہ بن اسعد شبامی، غلام ترکی، عبدالرحمنٰ بن عبدالرب انصاری اور کنانہ بن عتیق کا نام تواریخ کی کتابوں سے ملتا ہے۔ اس تحریر میں کربلا کی تاریخ میں شہید ہونے والے حفاظِ قرآن کریم کے بارے میں جانتے ہیں۔ نافع بن ہلال کے بارے میں گذشتہ تحریر میں تفصیلی ذکر ہوچکا ہے۔
کوفہ کے پہلوان کنانہ بن عتیق
اپنی صفت ِشجاعت کے ساتھ عبادت، زہد اور تقویٰ میں بھی ایک ممتاز انسان اور کوفہ کی شخصیات میں سے ایک تھے۔ کوفہ کے پہلوانوں میں سے تھے، قاریان قرآن اور زاہدوں میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔ رسولِ خدا حضرت محمدۖ کے جن برگزیدہ اصحاب نے اسلام کی سربلندی کے لیے سانحہ کربلا میں حضرت امام حسین کے ہمرکاب ہو کر جام شہادت نوش کیا، ان میں سے ایک جناب کنانہ بن عتیق تغلبی بھی ہیں۔ حضرت کنانہ بن عتیق کوفہ کے شجاع اور متقی و پرہیزگار افراد میں سے تھے، اپنے والد عتیق کے ہمراہ رسول اکرم کے ہمرکاب جنگ احد میں شریک ہوئے۔ جب انہیں امام حسین کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تو امام کی مدد و نصرت کے لئے محرم الحرام کی تیسری کو کربلا تشریف لائے۔ اپنی جان کو نواسہ رسول کے قدموں میں نچھاور کیا اور حملہ اولیٰ میں جامِ شہادت نوش فرمایا، جبکہ مورخین نے ان کی شہادت کو حملہ اولیٰ کے بعد کا ذکر کیا ہے۔(حملہ اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ یزیدی لشکر نے دس محرم کی صبح بہت ظالمانہ انداز میں بڑے حملے کئے، جس میں امام حُسین علیہ السلام کے 50 ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا، اس حملہ کو حملہ اولیٰ کہا جاتا ہے) زیارت ناحیہ میں ان پر سلام پیش کیا گیا ہے۔
سید القراء بریر بن خضیر
آپ کوفہ کے معروف ترین قاری تھے، جو کوفہ کی مسجد میں قرآن پڑھانے میں مشغول رہتے اور اہل بیت سے خصوصی محبت رکھتے تھے۔ تابعین اور امام حسین کے اصحاب میں سے تھے۔ بریر بن خضیر کا تعلق یمن کے ہمدانی خاندان کی ایک ذیلی شاخ مشرق سے ہے. یہ کوفے کے ساکنین میں سے تھے، بریر بن خضیر زاہد، عابد، کوفہ کی جامع مسجد کے بزرگ قاری، مفسر اور پرہیزگاروں میں سے شمار ہوتے تھے۔ حضرت امام حسین کے مدینے سے مکہ آنے سے جب بریر باخبر ہوئے تو کوفہ سے مکہ عازم سفر ہوئے اور یوں مکہ میں کاروان امام حسین میں شامل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جب حضرت امام حسین کربلا میں پڑائو ڈالنے پر مجبور ہوئے تو بریر نے کہا: خداوند کریم نے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہم آپ کے سامنے جہاد کریں اور آپ کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو جائیں، یہ کس قدر سعادت ہے کہ آپ کے جد قیامت کے روز ہمارے شفیع ہونگے۔ روایت میں منقول ہے کہ کربلا میں پڑئوا ڈالنے کے بعد حضرت امام حسین نے خطبہ دیا تو اس کے بعد اصحاب امام میں سے ہر ایک نے تجدید بیعت کی اور کھڑے ہو کر کلام کیا تو بریر زہیر بن قین کے بعد کھڑے ہوکر امام سے یوں مخاطب ہوئے: "فرزند رسول! خدا نے آپ کے وجود مبارک کے توسط سے ہم پر احسان کیا کہ ہم آپ کے سامنے قتال کریں، آپ کے دفاع میں ہمارے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، پھر قیامت کے روز آپکے جد رسول اللہ ہمارے شفیع ہونگے۔”
طبری کے بقول نویں محرم کو بریر بن خضیر نے عبد الرحمان بن عبد رب سے مزاح میں کچھ کہا تو عبد الرحمان نے جواب دیا: یہ وقت مزاح کا نہیں۔ بریر نے جواب میں کہا: "برادر! میرے اقربا اور اقوام جانتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو اہل مزاح نہیں تھا، چہ جائیکہ اس بڑھاپے میں مزاح کروں، لیکن میں اسے جانتا ہوں کہ جسے میں جلد دیکھنا والا ہوں۔ خدا کی قسم! حور العین اور ہمارے درمیان صرف اس قوم کی تلواروں کا فاصلہ ہے اور میں اس بات کو کس قدر دوست رکھتا ہوں کہ وہ زمانہ ابھی آجائے۔” یزید بن معقل نے کہا: تم اپنی نسبت خدا کو کیسا پاتے ہو۔ بریر نے جواب دیا: "اپنی نسبت خدا کی طرف سے خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا اور تمہاری نسبت خدا سے بدی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے۔” دعا مانگ کر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کرنا شروع کئے، یزید کی خفیف ضرب بریر کو لگی، جس سے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ بریر نے وار کیا تو اس کا وار اسکے سر کو چیرتے ہوئے دماغ کو پارا کر گیا اور اس کا کام اسی وار سے تمام ہوگیا۔ وار اتنا شدید تھا کہ تلوار اس کے سر میں پھنس گئی، بریر نے مشکل سے اسے باہر نکالا۔
اسی دوران رضی بن منقذ عبدی نے اس پر حملہ کیا دونوں گتھم گتھا ہوئے۔ بریر نے اسے پچھاڑ لیا اور اس کے سینے پر سوار ہوگئے۔ رضی نے اپنی مدد کیلئے ساتھیوں کو پکارا۔ یہ سن کر کعب بن جابر اس کی مدد کے لئے آگے بڑھا، جب اسے بتایا گیا یہ شخص خضر ہمدانی ہے، جو مسجدِ کوفہ میں لوگوں کو قرات قرآن کا درس دیتا تھا اور اسی نے ہی ہمیں قرآن مجید کی تعلیم دی، مگر اس نے اس شخص کی سنی ان سنی کر دی اور نیزے کے ساتھ بریر پر حملہ کر دیا اور وہ ان کی پشت پر آلگا، جیسے ہی بریر کو نیزے کے وار کا علم ہوا تو خود کو رضی بن منقذ کے اوپر گرا دیا اور اس کی ناک کو اچھی طرح زخمی کر دیا۔ کعب بن جابر نے نیزے کو زور سے دبایا اور رضی بن منقذ کی جان بریز سے چھرائی اور بریر کو تلوار کے وار سے شہید کر دیا۔ بریر ہمدانی کا قاتل کعب بن جابر جب واقعہ کربلا کے بعد اپنے گھر واپس آیا تو اس کی بیوی اور اس کی بہن نوار نے اس سے کہا کہ تم نے فرزندِ زہراء کے دشمن کی مدد کی اور قرآن کریم کے عظیم قاری یعنی بریر کو شہید کرکے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، خدا کی قسم ہم کبھی بھی تمہارے ساتھ بات نہیں کریں گے۔
حنظلہ بن اسعد شبامی
آپ کا شمار اہلبیت علیھم السلام کے بزرگ شیعوں میں ہوتا ہے، فصاحت و بلاغت اور شجاعت میں بے نظیر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری قرآن بھی تھے، جب حضرت ابا عبداللہ الحسین واردِ کربلا ہوئے تو آپ بھی امام عالی مقام علیہ السلام سے آملے تھے اور آپ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ امام الشہداء نے آپ کو اپنا قاصد بنا کر عمر بن سعد کی طرف بھیجا تھا۔ بروز عاشورہ امام علیہ السلام سے اذنِ جہاد لیکر فوجِ اشقیاء کے سامنے آئے اور انہیں نصیحتوں سے نوازنے اور فزند رسول کے قتل سے باز آجانے کی تاکید کی، مگر ان ظالموں پر آپ کی نصیحت کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔ حضرت امام عالی مقام نے انہیں فرمایا، آپ نے چونکہ انہیں نصیحتوں سے نوازا ہے اور انہیں راہِ حق کی دعوت دی ہے، لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ تمہارے اور تمہارے دوستوں کے قتل کے درپے ہیں اور تمہارے اور تمہارے دوستوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرچکے ہیں، ان پر عذاب الہیٰ واجب ہوگیا ہے۔
حنظلہ نے کہا مولا آپ نے سچ فرمایا، میں آپ پر قربان جاوں، آیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے رب کی ملاقات کے لئے آگے بڑھوں اور اپنے دوسرے بھائیوں سے جا ملوں؟ امام نے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا، جاو اس چیز کی طرف جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، ایسے عالم کی طرف جس کی کوئی حد و انتہاء نہیں اور ایسی سلطنت کی طرف جسے زوال نہیں۔ حنظلہ نے عرض کی اب میری اور آپ کی ملاقات بہشت ہی میں ہوگی۔ یہ سن کر حضرت امام حسین نے آمین کہا اور وہ میدان کارزار میں گئے، چند لشکریوں کے ہلاک کرنے بعد شہید ہوگئے۔
غلام ترکی
بحارالانوار میں ہے کہ آپ حضرت امام حُسین علیہ السلام کے ترکی غلام تھے، قرآن کے عمدہ قاریوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ آپ کے نام کا تعین انتہائی دشوار ہے، البتہ ایک روایت کے مطابق ان کا نام اسلم بن عمرو اور ایک نام "واضح ” تھا۔ امام حسین نے اسے حضرت حسن مجتبیٰ کی شہادت کے بعد خرید فرمایا تھا اور اپنے فرزند امام زین العابدین کو ہبہ کیا تھا۔ اس کا باپ عمرو ترکستان کا رہنے والا تھا، وہ امام کے پاس خطوط وغیرہ کی کتابت کا کام انجام دیتا تھا، وہ حافظ قرآن بھی تھا۔ روزِ عاشورا جنگ کے لئے امام عالی مقام سے اجازت مانگی اور میدان کارزار میں تشریف لائے۔ ایک روایت کے مطابق جب امام سے اس نے اجازت مانگی تو حضرت نے فرمایا کہ خیمہ میں جاکر سید سجاد سے اجازت حاصل کرو، غلام گیا اور امام زین العابدین سے اجازت حاصل کی، پھر تمام اہل حرم کو سلام کرکے وہ میدان جنگ میں آیا۔
میدان جنگ میں غلامِ ترکی یہ رجز پڑھا تھا: میرے امیر حُسین ہیں اور وہ بہترین امیر ہیں، جو پیغمبر خُدا کے دل کے چین ہیں اور یہ رجز خوانی بھی کی: میرے نیزے اور تلوار کے واروں سے سمندروں میں حرارت پیدا ہو جائے گی اور فضاء میرے تیروں سے بھر جائے گی، جب میری تلوار میرے دائیں ہاتھ میں چمکے گی تو بڑے بڑے حاسدوں کے دل پھٹ جائیں گے۔ یہ کہہ کر سپاہ دشمن پر حملہ کر دیا، بہت سے اشقیاء کو ٹھکانے لگایا۔ آخرکار آپ پر ہر طرف سے حملہ کر دیا گیا، زخمی ہوکر زمین پر گرے۔ امام عالی مقام آپ کے زخمی بدن کے پاس تشریف لائے، اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر خوب گریہ کیا۔ غلام نے اپنی آنکھ کھولی، امام کی پاکیزہ صورت کی زیارت کی اور جان، جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔
عبدالرحمٰن بن عبدالرب انصاری
شہدائے کربلا میں اس نام کے چار اشخاص پائے جاتے ہیں اور یہ عبد الرحمٰن وہ تھے، جنہیں صحابی رسول اور قاری قرآن ہونے کا شرف حاصل تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے ان کے دل میں جذبہ نصرت تھا، اس لئے کسی طرح کربلا پہنچ گئے تھے، جبکہ دوسری روایت کے مطابق آپ امام کے ساتھ مکہ سے ہمراہ تھے۔ آپ صحابی رسولۖ تھے اور حضرت علی کے مخلص اصحاب میں سے تھے۔ آپ کی تربیت خود امیرالمومنین نے ہی کی تھی اور قرآن بھی پڑھایا تھا، جب ایک مرتبہ رحبہ کوفہ کے مقام پر حضرت علی نے لوگوں سے کہا کہ جو شخص مقام غدیر خم میں موجود تھا اور سرکار رسالت مآب ۖ سے حدیث غدیر سنی تھی، وہ کھڑا ہو جائے اور گواہی دے تو اس وقت عبدالرحمنٰ بن عبدالرب انصاری اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور گواہی دی۔ دشمن کی طرف سے کئے گئے حملہ ثانی کے دوران طریح نامی ایک ملعون کے قتل کرنے کے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
منبع: اسلام ٹائمز