پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جہاں بہت کچھ خاص ہے وہیں پر عمرہ ڈپلومیسی بھی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ ماضی میں بھی اس ڈپلومیسی کے نظارے اکثر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں. خاص کر جب نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین بگاڑ پیدا ہوتا تو دونوں پارٹیوں میں سے ایک ضرور عمرے پر تشریف لے جاتی اور معاملات طے پاجاتے۔ مگر اس وقت کی عمرہ ڈپلومیسی اور ماضی کی عمرہ ڈپلومیسی میں ایک وسیع فرق نظر آرہاہے۔ ماضی میں عمرہ ڈپلومیسی پاکستان کے اندرونی معاملات کے حل کے لیے استعمال کی جاتی تھی مگر اب کی بار عمرہ ڈپلومیسی شاید پاکستان اور سعودیہ کے مابین ان دیکھی دیوار کے خاتمے کے لیے عمل میںلائی جارہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں طلب کیا گیا ہے؟یا ہم خود ہی اپنی عزت مٹی میں رول کرعمرہ ڈپلومیسی استعمال کرنے جا رہے ہیں؟
پانچ اگست کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مضبوط بیانات نے جہاں سعودی محلات میں ہلچل پیداکی وہیں دونوں ممالک کے تعلقات میں بھی بہت بڑی دراڑ ڈال دی۔ اس بیانات کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو اپنا اصلی رنگ دکھاتے ہوئے 2018 میں2۔3 بلین ڈالر قرضے کی مد میں دی ہوئی رقم واپس کرنے کے احکامات جاری کر دیے جن کی پہلی قسط پاکستان نے فورا چین سے لے کر ادا کر دی۔ تاہم اس کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین مسلسل ایک تناؤ دیکھنے کو ملا۔ جس کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بہ نفس نفیس خود سعودی عرب تشریف لے گئے اور معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
گو کہ تجزیہ کاروں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشوں کو کامیاب قرار دیا تھا تاہم اگر یہ دورہ کامیاب ہوتا تو دو روزہ قیام کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات محمد بن سلمان سے ہو جاتی مگر ذرائع کے مطابق بگڑے دل شہزادے نے پاکستان کی فوجی قیادت سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ ایسا ماضی میں کبھی بھی نہیں ہوا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سعودی عرب جائیں اور سعودی ولی عہد سے ان کی ملاقات نہ ہو پائے۔ تاہم عسکری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے باہمی دفاعی معاملات کے حوالے سے سعودی فوجی قیادت سے ملاقاتیں کرنا تھا جو کہ شیڈول کے مطابق ہوئیں۔
عسکری ذرائع نے بتایا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان سے ملاقات نہ ہو پائی کیونکہ وہ اپنے علیل والد کی عیادت میں مصروف تھے۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلیمان کے چھوٹے بھائی اور سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلیمان نے اپنے بڑے بھائی کی ترجمانی کرتے ہوئے جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات کی تھی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان نے اپنے چھوٹے بھائی اور نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلیمان کو تمام تر اختیارات کے ساتھ پاکستانی فوجی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی تھی۔
تاہم اسی دوران پاکستان میںسعودی سفیر سعید المالکی غیر معمولی طور پر متحرک نظر آئے اور اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کے علاوہ حکومت کی حلیف جماعتوں کے سربراہوںسے بھی ملاقاتیںکیں۔ اور اغلب امکان یہی ہے کہ ان ملاقاتوں کا مقصد عمرانخان کو پیغام دینا تھا کہ وہ ان کے متبادل کےلیے حرکت میں آ سکتے ہیں۔ تاہم یہ امر دلچسپ ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کے مابین کشیدگی کے لیے بجائے اس کے کہ عمران خان سعودی عرب جاتے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے یہ ذمہ داری سنبھال لی حالانکہ محمد بن سلمان اور عمران خان کے مابین بہترین تعلقات قائم تھے تاہم شاہ محمود قریشی والے واقعے کے بعد سعودی عرب نے عمران خان کو سعودی عرب آنے سے شاید منع کر دیا تھا یہی وجہ تھی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے یہ ذمہ داری سنبھال لی تھی
تاہم اب خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہونے والے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ان کی روانگی کا مقصد عمرے سے کہیں زیادہ سعودی قیادت کی ناراضی کو دور کرنا اور سعودی عرب کو ایران اور ترکی کے ساتھ تعلقات پر اعتماد میںلینا ہے۔ یہ امر بہر حال دلچسپ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب خود محمد بن سلمان کیخدمت میںحاضری دے کر انہیں منانے کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب نے انہیںخود طلب کیا ہو یا پاکستان کی فوجی قیادت نے انہیں سعودی عرب جانے کا مشورہ دیا ہو۔
بہر کیف کسی بھی صورت میںیہ ایک خود مختار ملک اور وزیر اعظم کے شان شایان نہیںہے کہ وہ اس طرح دوسرے ملک جا کر ناراض قیادت کو منائیں۔ اگر پاکستان نے سعودی عرب کے خلاف بیان دیا ہے تو انہیں اس بیان پر ڈٹ جانا چاہیے۔ اس طرح سعودی عرب کے سامنے لیٹ جانے سے یہ بات واضح وہ جائے گی کہ پاکستان سعودیہ کے سامنے بے بس ہے۔ پاکستان اگر اپنے موقف پر ڈٹا رہتا تو مستقبل میںنہ صرف برابری کی سطح پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم ہو سکتے تھے بلکہ سعودی عرب پاکستان کے بارے میںاپنا رویہ بدلنے پر بھی مجبور ہو سکتا تھا۔ تاہم عمرہ ڈپلومیسی کیا رنگ لاتی ہے اب وقت ہی بتائے گا۔
تحریر ایف ٹی مغل