پاکستان نے ایسے وقت میںجنم لیا جب بین الاقوامی سٹیج پر سرد جنگ گرم ہو رہی تھی ۔ سپر پاورز کی آپس میںدشمنی اورتیسرے درجے کے ممالک پر اس کے اثرات نے پاکستان جیسے ممالک کی اندرونی سیاست کو ایک مخصوص ساخت بخشی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بیرونی تعلقات اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے کردار کی تشکیل بھی اُنہی حالات کے مرہون منت رہی۔ پاکستانی ریاست اور معاشرے کی ملٹریائزیشن اسی سرد جنگ کا تحفہ تھی جو مقامی اور بین الاقوامی سیاست پاکستان کے دروازے پر چھوڑ گئی۔ ہمارے بین الاقوامی آقاؤں نے پہلی جنگ عظیم سے ہی اس خطے کی فوجی افرادی قوت کو پہچانا اور اس کو سویت یونین کے خلاف ایک اثاثے کے طور پر استعمال کیا۔
اسی لیے جب پاکستان کے فوجی کمانڈروں نے پاکستان کی سیاست اور حکومتی اقتدار پر اپنا اثرو رسوخ بڑھایا تو ان بین الاقوامی آقاؤں نے اپنے مقامی حلیفوں کی اس حرکت پر کوئی اعتراض نہ کیا حالانکہ یہی مغربی ممالک پوری دنیا میں جمہوریت کا پرچار کرتے دکھائی دیتے تھے۔یہ ایک رول کوسٹر کی سواری جیسا عمل تھا جس نے ہمیں ملٹری حکومتوں سے کنڑولڈ جمہوریت کے مابین گھما کہ رکھ دیا۔ اگرچہ امریکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا چیمپین بنا پھرتا ہے تاہم پینٹا گون اور سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز میںبیٹھے ہمارے حلیف یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں آمریت ان کے لیے کس قدر سود مند ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ نے جنرل ضیا کی آمریت اور پھر پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد انتخابی جمہوریت کا چہرہ دیکھا۔ اگرچہ جمہوری قوتوں نے مسلسل دو ادوار کامیابی سے مکمل کیے ہیںتاہم ان ادوار میں بھی انہیں اپنی بقا کے شدید خطرات لاحق رہے ہیں۔ پاکستان کے افق پر آمریت کا دوبارہ ابھرنا زیادہ طویل عرصہ پہلے کی بات نہیں کیونکہ دو اہم پیش رفتیں ، ایک بین الاقوامی اور دوسری مقامی سطح پر ہمارے سیاسی نظام کو ہلانے کے لیے بالکل تیار ہیں ۔
پہلی پیش رفت، روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد تیس سال تک دنیا پر امریکہ کی یک طرفہ حکمرانی کے بعد بین الاقوامی طاقتوں کا دوبارہ سر اٹھانا اور ان کے مابین سپرپاور کا ٹائٹل حاصل کرنے کے لیے جغرافیائی سیاسی رسہ کشی ہے۔ دوسری پیش رفت جو مقامی ہے وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا جمہوریت کو برداشت کرنے کا کم ہوتا حوصلہ ہے۔ بین الاقوامی سیاسی ماہرین کے مطابق جغرافیائی سیاسی رشہ کشی ابھرتی ہوئی طاقتوں اور پہلے سے موجود طاقتوںکے مابین تصادم، تناؤ یا جنگ کی طرف جائے گی اور یہ بات انسانی تاریخ سے عیاںہے ۔ اس لیے ییجنگ اور واشنگٹن کے مابین کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم دونوں ممالک کے مابین یہ ایک مختلف رنگا مقابلہ ہوگا کیوںکہ بنیادی طور پر یہ تصادم دو مختلف نظریاتی ممالک کے مابین ہونے والا ہے۔ واشنگٹن، جو کہ خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا ان داتا کہتا ہے وہ دنیا کے ممالک کے دروازے پردستکیں دے کر جمہوریت کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کررہاہے جبکہ چین ایک مختلف سیاسی نظام کا حامل ملک ہے۔ چین کی قیادت نے چینی معاشرے کو معاشی خوشحالی دے کر کامیابی سے اس نظام کو قانونی حیثیت دے دی۔ چین کے لوگ اس نظام سے خوش ہیں۔
یہ بات بہر حال یقینی ہے کہ آپ چین کے نظام کو جمہوریت نہیںگردان سکتے، مغربی ممالک اس کو آمریتی حکومت کہتے ہیںجہاں حکمران حکومت کے انتخاب میں کوئی کردار ادا نہیںکرتے اور نہ ہی امور سلطنت میںان کا کوئی کردار ہوتا ہے۔ امریکی ماہرین جو کہ دو مختلف نظریات کے حامل ممالک کے مابین بڑھتا ہوا تصادم دیکھ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ چین کا ماڈل دنیا میںآمریت کو ہوا دے گا اور پوری دنیا میں شہری آزادی اور شخصی خودمختاری کا خاتمہ کردے گا۔
ماضی میں بھی پاکستانی ریاست اور آمریتی اداروں نے دنیا کے دیگر ممالک اور معاشروں کے معاشی اور سیاسی ماڈلز کے مقابلے میں بین الاقوامی دباؤ پر خود کو لچک دار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کی قیاد ت کے لیے چین کا ماڈل بہت پرکشش ہے خاص طور پرجب آزاد میڈیا اور احتساب ملکمل طور پر مفقود ہوں۔ اور پھر ہم بہت تیزی سے ایسے آثار بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ہم چین کے کیمپ میںجانے کے لیے بے تاب ہیں۔
تاہم چینی ماڈل میںکچھ واضح مسائل بھی ہیں۔ اول، چینی ماڈل کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معاشی فوائد میں معاشرے کے تمام افراد کو شریک کریں گے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب چین کی طرح 1990 سے پرائیوٹ مارکیٹ کے قوانین کو مکمل کامیابی کے ساتھ معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرکے لوگوں کو غربت سے نکالا جائے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو معاشی ثمرات میںسانجھے دار بنا کر چین نے کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کو راسخ کیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی معاشرہ میں مستقبل قریب میں کسی قسم کی معاشی کامیابی کے آثار نظر نہیں آرہے اس لیےعوام کو معاشی ثمرات میںشریک کرنے کا سوال ہی نہیںپیدا ہوتا۔ اس صورتحال میں انتہا کی غربت اور سیاسی جورو ستم کا مجموعہ پاکستان جیسے غیر مستحکم معاشرے میںانتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ دوسرا پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے طرز زندگی میںمکمل مغریبت زدہ ہے۔ معاشرتی سطح پر وہ مغربی رسوم و رواج سے بہت زیادہ قریب ہے اور اسی لیے مغربی معاشروںکی سیاسی ، تجارتی اور فوجی طبقے کے ساتھ آسانی سے گھل مل جاتا ہے۔ تاہم چینی رسوم و رواج ان کے مزاج کے مکمل برعکس ہیں۔
اس وقت بظاہر پاکستانی فوج افغانستان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا کر امریکہ کی مدد کررہی ہے تاہم یہ ایک طرحسے روس، چین اور ایران کی خواہش کی تکمیل بھی کر رہی ہے جو کہ افغانستان میںایک مضبوط حکومت کے خواہاںہیںجو داعش اور اس طرح کے دہشت گرد گروہوں سے اچھی طرح نمٹ سکے۔
پاکستان ان تین آمریتی ممالک سے جو اثرو رسوخ اور طرز حکومت سیکھے گا اس کا اثر اگلے دو سالوںمیں واضح ہوگا۔ میڈیا پر قدغن ، سیاسی مخالفین کو دبانا اور معاشرتی آزادی کو سلب کرنے کے نشانات پاکستان میںسامنے آنا شروع ہوگئے ہیںِ۔ پاکستانی تجزیہ نگار اس بات کی پیشن گوئی کر رہے ہیںکہ پاکستان میںباقاعدہ چینی آمریت ماڈل کا عکس جلدی سامنے آئے گا۔ صدراتی طرز حکومت ہمارے آمریتی اداروںکو ہمیشہ سے موافق رہے ہیں تاہم اس طرح کی طرز حکومت کے ذائقے کی لذت پاکستان کو مزید مسائل سے دو چار کردے گی۔