عالمی ادارہ صحت(W.H.O )کی نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 7 ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے کامیابی سے کورونا کو شکست دی۔ہفتہ کو پاکستان میں کورونا کویڈ 19 کے 584نئے کیس رپورٹ ہوئے جبکہ 3اموات ہوئیں۔پاکستان میں اب تک کورونا سےمرنے والوں کی تعداد6377 ہے۔کورونا کے مصدقہ کیسز301240 جبکہ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد288536 ہے۔ملک میں اس وقت کویڈ19 کے فعال کیسز 6327 ہیں ۔
مختلف ملکی اور غیر ملکی ادارے تحقیق کر رہے ہیں کہ دنیابھر کے ممالک میں عام طور پر اور پاکستان میں کن عوامل کے باعث کورونا وباء پر قابو پانا ممکن ہوا ۔مغربی میڈیا میں کام کرنے والے صحافی اس حوالے سے پاکستانیو سے رابطے میں ہیں کہ وہ اس بات کا کھوج لگا سکیں کہ پاکستان میں کورونا سے زیادہ تباہی کیوں نہیں ہوئی اور حکومت کی کورونا پالیسی اصل میں کیا تھی؟ پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش جیسے ممالک جو کم وبیش ایک جیسے جغرافیائی، سماجی اور معاشی حا لات رکھتے ہیں تو ایسے میں کیا بنیادی فرق تھا جو پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کا سبب بنا اورتمام ملکی اور غیر ملکی اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
کورونا وبا ءسے نبٹنے میں حکومتی اقدامات کی بڑی اہمیت ہے۔دنیا بھر میں حکومتیں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل کر رہی تھیں کیونکہ وباء کی پیش کردہ صورتحال انتہائی خوفناک نظر آرہی تھی۔ اگست تک پاکستان میں وبا کا عروج پر جانا متوقع تھا اور 22 کروڑ کی آبادی میں 8 لاکھ اموات کا اندازہ لگایا گیا تھا۔پاکستان نے ابتدائی ردعمل میں فوری طور پر صوبوں میں لاک ڈاؤن شروع کیا جس کے خوفناک نتائج کا حکومتی سطح پر جلد ہی ادراک کر لیا گیا تھا۔حکومت نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے تین اہداف مقرر کیے۔سمارٹ لاک ڈاؤن ، وسائل کی شفاف اور یقینی فراہمی، تمام ممکنہ میڈیکل سہولیات کی دستیا بی،عوامی آگاہی اور ایس او پیز کو یقینی بنانا۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سنٹر( این سی او سی ) کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا کہ کورونا کے خلاف ٹی ٹی کیو یعنی Tracing,Testing and Quarantina کی پالیسی مؤثر ثابت ہو ئی۔ کمیونٹی ورکرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیسز کی کمی میں عوامی رویہ اورکردار میں تبدیلی بہت اہم ہے۔لوگو ں نے جس طرح ہدایات پر عمل کیا اور رسد و سپلائی کو برقرار رکھنے میں مدد دی اس نے بہت سے معاشرتی اور معاشی سانحات کو جنم لینے سے روکا۔ اسد عمر کے مطابق ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو 60 ہزار روزانہ تک لےجانااور133 لیب کے قیام نے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کرنے اور سمارٹ لاک ڈاؤن کرنے میں مدد دی۔آج ملک میں کورونا کے یومیہ 22 ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور 89 فیصد وینٹی لیٹرز فارغ ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کا تناسب 93.8 فیصد ہے۔
وبا کی کمی کے دیگر عوامل جنہیں عالمی سطح پر جانچا جا رہا ہے وہ یہ ہیں۔
1:پاکستان میں اوسط عمر 22سال ہے جبکہ کورونا وائرس عام طور پر زیادہ عمر کے بیمار افراد کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔کورونا وبا ءکے دوران زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں اوسط عمر35 تا 45 سال ہے۔چونکہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان مختلف بیماریوں کا شکارہوتا رہتا ہے اس لیے اس کی قوت مدافعت بھی کمزور ہوتی جاتی ہے۔اوسط عمر کم ہونے کی وجہ کو ایک اہم پہلو خیال کیا جا رہا ہے۔
2:پاکستان میں وبا جولائی میں اپنے عرج پر تھی اس وقت موسم شدید گرم اور حبس زدہ تھا۔ بعد میں نم آلود اگست میں وبا میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ موسمی تغیر بھی وبا کا گراف نیچے لانے میں معاون ثابت ہوا تاہم حتمی طور پر ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ برازیل اور پیرو جیسے ممالک جہاں موسم میں نمی کا تناسب کم وبیش پاکستان جیسا ہے،میں وبا ءکی شدت اور اموات میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔
3: کویڈ 19 کے اثرات معمولی انفیکشن سے نظام تنفس کے ناکارہ ہونے تک ہوتے ہیں۔ یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس علاقے میں لوگ مختلف اقسام کی ویکسین استعمال کرتے رہے ہیں جس نے کویڈ 19کے خلاف ان کے نظام مدافعت میں ایسی تبدیلی کر دی ہو جواس وقت کام دکھا رہی ہے۔تاہم اس حوالے سے بھی کوئی حتمی تحقیق سامنے نہیں آئی۔
4:یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ سماجی بدنامی کی وجہ سے لوگوں نے ٹیسٹ نہیں کروائے۔یوں وہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنے۔بعض جگہوں پر غلط رپورٹنگ کی شکایات بھی سنی جا رہی ہیں یعنی کیسز رپورٹ نہیں کیے جا رہےاور ٹیسٹ بھی محدود ہو رہے ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے حکومت کو کیا فائدہ ہو گا؟قبرستانوں سے جمع کیا جانے والا ڈیٹا بھی اس کو سپورٹ نہیں کر رہا۔
5: ایک طبقہ فکر کے نزدیک پاکستان عطیہ خداوندی ہے ،پاکستانی سخت جان قوم ہے۔ مختلف بیماریوں کے خلاف مضبوط قو ت مدافعت رکھتی ہے۔ دوا کی تدبیر کےساتھ دعا کی بکثرت نے مہلک وائرس کو یہاں پرپنجے گاڑھنے سے محفوظ رکھا ۔وزیراعظم عمران خا ن اپنی گفتگو میں اس کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وجہ سےویسی تباہی نہیں ّآئی جس طرح دیگر ممالک میں دیکھی گئی ہے۔ انہوں نے عید الاضحیٰ پر خاص طور پر قوم سے یہ اپیل کی کہ وہ اس موقع پر احتیاط کریں اور غفلت کے مرتکب ہو کر ناشکری نہ کریں ۔
کورونا وبا چونکہ ابھی نئی ہے لہذا امکان ہے کہ پاکستان میں جہاں لاک ڈاؤن ختم کر کے اب مائیکرو لاک ڈاؤن کا آغاز کر دیا گیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ تمام معاشی اور تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دی گئی ہیں اس وجہ سے کورونا وبا ءکی دوسری لہر نہیں جنم لےگی۔جیسا کہ چین اور بعض دوسرے ممالک میں ہوا ہے۔نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اور ویت نام جیسے مما لک جو ایک مرحلہ پر کورونا فری ہو چکے تھے اب وبا کی دوسری لہر اور دیگر مختلف وبائی امراض کا شکار ہو رہے ہیں تاہم پاکستان کی سیاسی قیادت کی بہترین حکمت عملی کا برطانوی جریدہ ایشین ورلڈ نے بھی اعتراف کیا ہے اور عوام کو کورونا سے بچانے میں عمران خان کو فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ دنیا میں 88 ممالک ایسے ہیں جہاں کورونا پاکستان کے مقابلے میں بہت کم اثر انداز ہوا ہے۔103 ممالک میں شرح اموات پاکستان سے کم رہی ہے۔ہر ملک میں مختلف عوامل وبا کی تیزی اور کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ عوام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کے بتائی گئی تدابیرپر سنجیدگی سے عمل کرے۔حکومت بار بار عوام کو خبردار کر رہی ہے کہ خطرہ کم ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ اس لیے احتیا طی تدابیر کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں اورایس او پیز پر سختی سے عمل جاری رکھیں۔
شفقنا اردو
ur.shafaqana.com
اتوار،13 ستمبر 2020