پاکستان میں میڈیا کی آزادی ایک ناختم ہونے والی بحث ہے اور ناقدین نے میڈیا کو ہمیشہ پابندیوں میں جکڑا ہوا اور مظلوم ظاہر کیا ہے ۔ دنیا میں میڈیا کی آزادی پر کام کرنے والی تمام این جی اوز کے مطابق پاکستان میںمیڈیا آزاد نہیں ہے بلکہ اس کو حکومت کی جانب سے قدغنوں کا سامنا ہے جبکہ میڈیا واچ ڈاگ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق میڈیا ورکرزکے خلاف امسال 42 فیصد کیسز رپورٹ ہوئے ۔ متاثرین میڈیا ورکرز اور ان کے خاندانوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے خلاف کارروائیوںمیںریاستی عناصر ملوث ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتی عناصر میڈیا کو دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہیں۔ جب کہ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں33 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
اس طرح کی رپورٹیں ہر سال شائع ہوتی ہیں اور ہر رپورٹ میں ریاست اور اس کے عناصر کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس بات کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ریاست بعض معاملات میںمیڈیا کو دبانے کا کام کرتی ہے تاہم کیا پوری دنیا میں ملکی مفاد کے لیے ریاستیں یہ کام نہیںکرتیں؟ کیا مغربی ممالک جہاں میڈیا کو مکمل آزاد دکھایا جاتا ہے میڈیا پر ڈھکی چھپی قدغنیں نہیںلگائی جاتیں؟ ان رپورٹس میں یہ بات کبھی بھی نہیں بتائی گئی کہ قتل ہونے والے ان صحافیوں میں ذاتی دشمنی کے کتنے کیسز تھے؟ ہر ایک صحافتی قتل کے پیچھے ریاست کو ذمہ دار ٹھہرانا سراسرنا انصافی ہے۔
اگر دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا میڈیا ان کے میڈیا سے کہیں زیادہ آزاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں کوئی صحافی مقبوضہ کشمیر میںہونے والے مظالم پر فوج کے خلاف بات کر سکتا ہے؟ حال ہی میں بھارتی چیف بپن راوت نے اپنے لیے ایک نیا عہدہ تخلیق کیا ہے جو کہ اس سے قبل بھارتی فوج کی روایت میں نہیںتھا تو بھارتی میڈیا اس پر کتنا چیخا اور کس نے اس پر بات کی؟
دوسری جانب پاکستان میں فوج پر گوں نا گوں تنقید کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال عائشہ صدیقہ کی کتاب ملٹری انکارپوریٹیڈ ہے۔ اس کے بعد حال ہی میںاحمد نورانی نے ایک سابقہ جنرل اور ملک کے اہم ترین ادارے کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ایک افسر کے خلاف پوری چارج شیٹ شائع کی جس پر میڈیا میں پروگرام ہوئے ، اخباروںمیں لکھا گیا اور ٹاک شوز میںبات کی گئی بلکہ ٹاک شوز میںسابقہ جنرل کو بلوایا گیا؟ کیا مغربی ممالک میںمیڈیا میں ایسی کوئی روایت ملتی ہے۔
ابھی اس قصے کی گونج باقی تھی کہ گزشتہ ہفتے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا ” یہ کمپنی نہیں چلے گی” جس کے کور میںںہ صرف ملک کے سیاسی رہنماؤںبلکہ پاک فوج کے سپہ سالار کی بھی تضحیک کی گئی۔ کتاب کا کور ایک کارٹون پر مشتمل ہے جس میںوزیر اعظم عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے قدموں میں بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کمرے کی کھڑکی سے جھانک رہے ہیں۔ یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ یہ کتاب سہیل وڑائچ صاحب کے مختلف اخباروں میںچپھنے والے کالموں پر مشتمل ہے جبکہ کور پر کارٹون انتہائی تضحیک آمیز ہے؟ ان دونوں باتوںکا ربط سمجھ سے بالاتر ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ میںاس طرح کا کارٹون چھپ سکتا ہے جس میں صدر ٹرمپ پینٹا گون چیف کے قدموں میںبیٹھے ہوں؟ کیا آپ برطانوی وزیر اعظم کے بارے میں اسطرح کے کارٹون کا تصور کر سکتے ہیںکہ بورس جانس ، نک کارٹر کے قدموں میں بیٹھا ہو؟ اگر نہیں تو پھر یہ جان لیں کہ پاکستان میںمیڈیا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا سے کہیں زیادہ آزاد ہے۔ گو کہ اس کتاب کو بک سٹالز سے ہٹا دیا گیا ہے تاہم یہ سوال ابھی تک برقرار ہے کہ کیا میڈیاکو اس قدر آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ اداروں کے تقدس کو پامال کرتا رہے اور اس کو روکنے پر قدغن کا الزام لگایا جائے؟
شفقنا اردو