8 سال گزرنے کے باوجود بلدیہ فیکٹری کی آگ کا دھواں نہیں سمٹ سکا۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جمعرات17 ستمبر کو سنائے جانے والا فیصلہ ایک بار پھراگلی پیشی( منگل 22 ستمبر) تک ملتوی کر دیا۔مجرموں کے خلاف انصاف کا بیان کب آئے گایا یہ بیان متاثرین کے لیے زندگی بھر کا انتظار بن جائے گا؟ گارمنٹس فیکٹری علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن کراچی کے پلاٹ نمبر61 پر واقع ایک بڑ ی فیکٹری تھی جہاں 12 سو سے 15 سو کارکن کام کرتے تھے۔اس فیکٹری کا مال یورپ اور امریکا برآمد کیا جاتا تھا۔ڈینم،نیٹیڈفیبرک اور ہوزری بنانے والی اس فیکٹری کی مالیت 5 کروڑ ڈالر تک تھی۔فیکٹری میں کے آئی کے(کک) برانڈکے لیے بھی جینز تیار کی جاتی تھیں۔کک اپنے سپلائر کی فیکٹریوں میں لیبر لاز اور حفاظتی انتظامات کو یقینی بناتی ہے۔آگ لگنے سے چند ہفتے پہلے ہی فیکٹری نے ایک انٹر نیشنل سیکورٹی ٹیسٹ SA8000 پاس کیا تھا۔
11ستمبر 2012 کو اس فیکٹری میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اور فیکٹری میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے آگ کے شعلے قابو سے باہر ہو گئے۔ فیکٹری میں اس وقت 5سو کے قریب ورکرز تھے۔آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔فیکٹری کے دروازوں کو باہر سے تالے لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں لگی تھیں،ورکرز کے باہر نکلنے کے راستے بند تھے یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ اموات دم گھٹنے سے ہوئیں۔دو روز تک بھڑکتی آگ کے اس حادثے میں 260فیکٹری ورکرز جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔17 افراد کی لاشیں ناقابل شناخت تھیں۔یہ ایک عظیم سانحہ تھا اور پاکستان کا نائن الیون کہلایا ۔
پولیس رپورٹ میں واقعہ کو حادثہ قرار دیا گیا اور ابتدائی طور پر فیکٹری مالکان اور 4 چوکیداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھرایا گیا۔14ستمبر کو سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بینچ کے جسٹس حسن اظہار نے 5 لاکھ کی زر ضمانت پر فیکٹری مالکان عبدالعزیز،شاہد بھیلہ اور ارشد بھیلہ کو عارضی ضمانت پر رہا کر دیا۔ عدالت نے ملزموں کی تمام جائیداد ضبط کرنے اور ملزموں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کاحکم دیا۔ ملزموں نے خود کو بے قصور قرار دیتے ہوئے مرحوم ورکرز کے لیے معاوضہ کا اعلان کیا۔حکومت سندھ نے بھی مرنے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کے لئے امدادی رقوم کا اعلان کیا۔
اس وقت کی گئی جوڈیشل انکوئری جس کی سربراہی جسٹس زاہد قربان علو ی کر رہے تھے نے اپنی رپورٹ میں آگ لگنے کی وجہ شارٹ سرکٹ کو قرار دیا او رٹریفک رش کی وجہ سے تاخیر سے پہنچنے والی فائر بریگیڈ اور ناکافی آگ بجھانے کے سامان کو اموات میں اضافہ کی وجہ بتایا۔
بلدیہ فیکٹری کیس میں 7 فروری2015 کو ایک نیا سنسنی خیز موڑ اس وقت آیا جب رینجرز نے رپورٹ کیا کہ اس آگ کے پیچھے ایم کیو ایم کا ہاتھ تھا۔ ایم کیو ایم نے فیکٹری میں آگ بھتہ خوری کی رقم وصول کرنے کے لیے لگائی تھی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سندھ ہائی کورٹ کو پیش کی۔اس رپورٹ کے ساتھ ڈپٹی اسسٹنٹ جج ایڈوکیٹ جنرل آف رینجرز میجر اشفاق احمدکا ایک بیان بھی تھا جس کے مطابق یہ اطلاع 22 جون 2013 میں دوران تفتیش ایک مشتبہ شخص محمد رضوان قریشی نے دی تھی جو مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا رکن تھا۔اس کے کہنے کے مطابق ایم کیو ایم کے ایک اعلی عہدہ دار حماد صدیقی نے اگست2012 کو فیکٹری کے مالک سے 25 کرو ڑروپے بھتہ مانگا تھا۔فیکٹری کے مالک نے بھی سابق گورنر سندھ عشرت العباداور سیٹزن پولیس لائزن کمیٹی ( سی پی ایل سی )کے سابق سربراہ احمد چنائے کو واقعہ کا ذمے دار ٹھرایا تھا۔
اکتوبر 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ اور ڈی آئی جی منیر شیخ کی سربراہی میں4 رکنی فرانزک ایکسپرٹ ٹیم کراچی پہنچی۔سائنٹیفک بنیاد پر شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد واضح ہوا کہ آگ شارٹ سرکٹ کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ کچھ کیمیکلز کو آگ لگانے اور پھیلانے کے لیے باقاعدہ استعمال کیا گیا تھا۔فیکٹری مالکان نے دبئی سفارت خانہ میں ایم کیو ایم کے خلاف اے ٹی سی کو سکائپ بیان میں بتایا کہ2004 میں ایم کیو ایم کو پندرہ سے پچیس لاکھ روپے بھتہ جانا شروع ہوا۔2012 میں حماد صدیقی نے 25کروڑ کا مطالبہ کر دیا۔
مطالبہ پورا نہ ہونے پر اس کے کارکنوں نے فیکٹری میں آگ لگائی۔سانحہ کے بعد گورنر عشرت العباد نے احمد چنائے کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ معاملہ ٹھنڈا کرنا ہے تو چار چار لاکھ روپے فی کس لواحقین کو دینے کے لئے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر جمع کروائیں۔ مالکان کےمطابق ضمانت کے بعد شدید دباؤ کی وجہ سے ملزم علی قادری کے اکاؤنٹ میں 5 کروڑ اٹھانوے لا کھ روپے جمع کرا دئیے۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق واقعہ دہشت گردی کی ایک منظم کوشش تھی۔27 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان سے 25 کروڑروپے بھتہ مانگا گیا تھا۔ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیقی اور رحمان بھولا اس میں شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ کی ایف آئی آر بہت کمزور کاٹی گئی۔لگائی گئی دفعات اس واقعہ کو عام قتل کیس کے طور پر پیش کر رہی تھیں۔ جے آئی ٹی نے ایک نئی ایف آئی آر کاٹنے کی تجویز دی ہے جس میں حماد صدیقی،رحمان بھولااور زبیر چریا کا نام شامل کیا جائے۔
مارچ 2016 میں پولیس نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ فیکٹری میں منظم منصوبہ بندی کے تحت آگ لگائی گئی تھی ، یہ دہشت گردی کا کیس ہے اور مقدمہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت چلانے کی درخواست کی۔ پولیس نے اگست 2016 میں اپنی ضمنی تفتیشی رپورٹ میں حماد صدیقی،عبدالرحمان بھولا کے خلاف تو چارج شیٹ فائل کی لیکن دیگر 13 افراد کے نام شامل نہ کیے۔
دسمبر 2016 مین جب عبدالرحمان بھولا کو بنکاک سے گرفتار کیا گیا تو اس نے اپنے بیان میں جرم کا اقرار کیا۔ اپریل2017 میں پولیس نے اس کے خلاف ضمنی چارج شیٹ فائل کی۔ اس نے حماد صدیقی، زبیر چریا، اور روف صدیقی کے بارے میں تفصیلی بیان دیا۔ تاہم پولیس نے روف صدیقی کو معصوم قرار دیا۔ پبلک پراسکیوٹر کے اعتراض پر جنوری 2018 میں رؤف صدیقی کو بھی ملزم قرار دے دیا گیا۔
اس کیس کی تحقیقات میں فرانزک،بیلسٹک اور کیمیکل تجزیاتی رپورٹس کے علاوہ 400 افراد کی گواہی بھی شامل کی گئی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ 22 ستمبر کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے اور متاثرہ خاندانوں کو 8 سال بعد ہی سہی انصا ف مل پائے گا؟
شفقنا اردو
ur.shafaqana.com
جمعہ ،18ستمبر2020