یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ پورے پاکستان میںتعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں اور یہ اللہ کا خاص کرم بھی ہے کہ ترقی پزیر ممالک ہونے کے باوجود پاکستان کے پاس نہ تو کرونا سے لڑنے کے لیے وسیع ذرائع تھے نہ ہی بہترین طبی سہولیات تاہم کرونا اپنے اختتام کی طرف جاتا دکھائی دے رہاہے۔ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے کیسز میں کمی دیکھنے میںآئی ہے تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ کرونا ایک مرتبہ پھر سر نہ اٹھا لے کیوںکہ بہت سارے ممالک میںکرونا کی وبا ایک مرتبہ اپنے اختتام پر جا کر دوبارہ سر اٹھانے لگی ہے۔ پاکستان میںبھی آج کیسز کی تعداد معمول سے زیادہ رہی یعنی گزشتہ دنوں کے مقابلے میںسب سے زیادہ 752 کیس رپورٹ ہوئے۔
ایک طرف صورتحال امید افزا ہے تاہم دوسری طرف سکول کھلتے ہی بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں کرونا کی دوسری لہر میںپھر اضافہ دیکھنے کو نظر آر ہا ہے اور اسی وجہ سے سندھ کابینہ کے بیشتر اراکین اسمبلی نے چھوٹی کلاسز بحال نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کے مطابق چھوٹی کلاسز کے سکولوں کو مزید ایک سے دو مہینے بند کیا جاسکتاہے ۔ پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے بھی اس طرح کے عندیہ کا اظہار کیا ہے ۔ واضح رہے این سی او سی کے مطابق ملک بھر میںگزشتہ 24 گھنٹوں میںمزید 13 تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیںجبکہ آج ننکانہ کے دو سکولوں میں کورونا وائرس کیسز رپورٹ ہونے پر ان کو سیل کردیا گیا ہے۔ سکولوں میں 4 اساتذہ اور ایک طالب علم میں کورونا وائرس پایا گیا۔
این سی او سی نے پورے ملک میںٹارگٹڈ ٹیسٹنگ کا عمل شروع کررکھا ہے اور تمام تعلیمی اداروں میں سختی سے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سکولوں میںایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جاسکتا ہے؟ پنجاب میں جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق آدھے آدھے بچے روزانہ سکول بلائے جائیں گے جب کہ ماسک پہننا اور ہینڈ سینیٹائزرز کا استعمال بھی لازمی قرارد یا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب میں بہت سارے سکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں اور وزیر اعلی پنجاب نے حال ہی میںجو ریشنلائزیشن پالیسی جاری کی ہے اس کے تحت ایک کلاس روم میں60 طلبہ پر ایک معلم مقرر کیا جائے گا؟ ایک کلاس روم میں اگر 60 بچے ہوں تو یقینا نصف بچوں کی تعداد 30 بنتی ہے اور کیا ایک کمرے میںجہاںڈیسک بھی موجود ہوں ان 30 بچوںکو چھ فٹ یا کم از کم تین فٹ کے فاصلے پر بٹھایا جاسکتا ہے؟
اور اگر ان بچوںکو دو الگ الگ کمروں میں بٹھایا جاتا ہے تو کیا پنجاب میںاساتذہ کی تعداد اتنی ہے کہ وہ بیک وقت دو گنا کلاسز کو پڑھا سکیں؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پنجاب کے پرائمری، مڈل ، ہائی اور ہائیر سکینڈری سکولوں میں بچوں کی اوسط تعداد 500 کے لگ بھگ ہے تو کیا ان کے لیے کس قدر ہینڈ سینیٹائزرز درکار ہوں گے؟ کیا حکومت پنجاب نے سرکاری سکولوں کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا ہے؟ کیوںکہ 500 کی نصف تعداد یعنی 250 بچوںکے لیے کم ازکم 2000 ملی لیٹر روزانہ کی بنیاد پر سینٹائزرز کی ضرورت پڑے گی۔
مزید برآں اگر سکولوں میں کسی نہ کسی طرح سماجی فاصلے کو یقینی بنا بھی لیا جائے تو روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو لے کر آںے جانے والی گاڑیوں میں کیا بچوں کے مابین سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اس مقصد کے لیے بیشتر ایسی گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں جس میں سماجی فاصلے کو یقینی بنانا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ ان گاڑی والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک وین میںزیادہ سے زیادہ بچوں کو بٹھایا جائے تاکہ آمدن میںاضافہ ہو۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔
اسی طرح دیہاتوں میں خاص طور پر سکول سےچھٹی کے بعد نکلنے والے بچے عموما ہجوم کی شکل میں مل کر سکول کی طرف روانہ ہوتے ہیں جس سے سکول میں کی جانے والی تمام تر تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھ کر زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی پالیسیاں ترتیب دے ورنہ ممکن ہے کہ سکول کھلنے سے پہلے ہی بند ہو جائیں کیونکہ کرونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ شہروں سے باہر نکل کر دیہاتوںمیں بھی سکولوں کی صورتحال کو مدنظر رکھیں اور سکول کے بعد کے حالات کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کریں۔
شفقنا اردو