دنیا میں ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد خود کشی کرلیتے ہیں۔اس اُبھرتے ہوئے انسانی المیہ کو ایک چیلنج کی طرح دیکھنا چاہیے کیونکہ بہت دفعہ خود کشی کی روک تھام ممکن ہوتی ہے۔خود کشی کی غمومی وجوہات شرم، گناہ، لاچارگی اور بے بسی جیسے احساسات ہوتے ہیں جن سے نباہ کرنا اور ان پر قابو پانا انسان کو اپنے بس سے باہر لگتا ہے اور یوں وہ انتہائی بے کسی کی حالت میں زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔
اقوام متحدہ نے 10ستمبر کو خود کشی کی روک تھام کا عا لمی دن قرار دیا ہے۔ پاکستان نے ایک جامع مینٹل ہیلتھ ایکشن پلان کے تحت 2013-2020 تک 10فیصد خود کشی کے واقعات میں کمی لانے کے معاہدہ پر دستخط کئے ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں خود کشی کی روک تھام کے قومی پروگرام آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان نے بھی SDG 2030 کے ایجنڈہ کے تحت اپنی ترجیحات میں ذہنی صحت اور بہتری کو شامل کر رکھا ہےاور اس کوخود کشی میں کمی کے پیمانے سے جانچا بھی جا سکتا ہے۔
پاکستان سے متعلق ورلڈ بنک کے 012 2 کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی میں خود کشی کی اوسط شرح7.5 فیصد اور 2016 میں 2.9 فیصد تھی۔ اندیشہ ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہےکیونکہ خاندان کے افراد اس بات کو چھپاتے ہیں۔اسے ایک معاشرتی المیہ کہا جا سکتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً15سے 35 افرادروزانہ خود کشی کرلیتے ہیں۔
پاکستان میں خود کشی کے رحجان کی بڑی وجوہات میں ذہنی بیماری،مالی مسائل، زیادتی ،تشدد،ہراساں کرنا،پیاروں کی موت،قطع تعلق،طلاق،امتحان میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں۔دین اسلام میں خود کشی حرام ہے اور لوگ اس وجہ سے انتہائی مایوسی کی حالت میں بھی خود کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اسی معاشرہ میں مایوسی،بے بسی اور گناہ جیسے احساسات پر بات کرنے کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جاتی۔ تحقیق بتاتی ہے کہ دو طرح کے خیال اس رحجان کو عملی قدم میں بدل دیتے ہیں۔ پہلا جب مریض یہ سمجھنا شروع کر دے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا اور دوسرامناسب سماجی اور نفسیاتی مددنہ ملنے کا یقین ہونا۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خود کشی کرنے والوں کی اوسط عمر 15سے 35 سال ہے۔یعنی عمر کا وہ حصہ جب انسان اپنی پہچان کے لیے دوسروں کی رائےاور تعلق کو بہت اہمیت دے رہا ہوتا ہے۔اسے اپنی ذات کی خامیوں کو سمجھنے کے لیے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے زیادہ قبولیت،یقین اور وقت چاہیے ہوتا ہے۔زندگی کی کوئی اچانک کروٹ ان کی ذاتی بے یقینی کی کیفیت کو شدید دباؤ میں لے آتی ہے اور وہ انتہائی قدم اُٹھا لیتے ہیں۔
پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں 2019 میں 3,227 افراد نے خود کشی کی جن میں 1827 مرد اور 1400 خواتین تھیں۔ میو اسپتال لاہور کے شعبہ نفسیات کے سربراہ کے مطابق خود کشی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، روزانہ تین سے چار افراد اس اسپتال میں خود کشی کی کوشش کرنے پر داخل ہوتے ہیں۔ ڈپریشن، غربت،معاشرتی رویے،ناکامی اور بد نامی کا خوف، توقعات کا پورا نہ ہونا وغیرہ اپنی زندگی ختم کرنے کی اہم وجوہات ہیں۔سندھ کے ضلع تھر پارکر میں گزشتہ چندسال میں 87 افراد نے خود کشی کی جن میں 53 خواتین تھیں۔حال ہی میں سامنے آنے والے کیسز میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مرد اور خواتین جب جنسی ہراسگی کا شکار ہوئیں تونا مساعد سماجی حالات میں ان کے لیے خود کشی ہی واحد راستہ تھا۔
دیکھا جا رہا ہے کہ خود کشی کا رحجان ہر عمر،طبقہ اور پیشہ کے افراد میں پایا جا رہا ہے۔ شہر اور گاؤں ہر جگہ نامساعد حالات اورذہنی بیماریوں کے لیے سہولیات کی عدم دستیابی سنگین صورتحال کو دعوت دے رہی ہے۔خودکشی کے لئے زیادہ استعمال کیے جانے والے طریقوں میں درخت یا پنکھے سے لٹکنا، کیڑے مار ادویات کا استعمال کرنا، کالا پتھر پی لینا ،آگ لگا لینا،بلند جگہ سے کود جانا اور آتشیں اسلحہ کا استعمال ہے۔
نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاونڈیشن کے مطابق تقریباً 35 فیصد پاکستانی ڈپریشن کا شکار ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنی صحت کی اس ایمر جنسی کو سمجھا جائے اور اسکول ،کالج ،یونیورسٹی سے لے کر دفاتر تک میں ذہنی مسائل اور ان سے نبٹنے کے طریقے بتائے جائیں۔ ماہرین نفسیات تک لوگوں کی رسائی آسان بنانی چاہیے۔ لوگوں کو باہمی رویوں میں توازن کو اپنانے پر زور دینا چاہیئے۔ اپنی بات کہنے کی عادت کو فروغ دینے کی ضرورت ہےاور دوسروں کی بات تحمل سے سننے کی تربیت ہونی چاہیے۔
نطام تعلیم کی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ طالب علموں کے مابین مقابلے کی فضا پیدا کر دی گئی ہے کامیابی کا معیا ر اچھی زندگی نہیں بلکہ پر آسائش زندگی کو بنا دیا گیا ہے۔اس مقابلہ کا دباؤ اپنے ساتھ بے شمار ناکامیوں کے تجربات اور خوف لے کر آتا ہے اور یہ ہی وہ اسباب ہیں جو نوجوانوں میں فرار کے راستے کی طلب پیدا کر رہے ہیں۔ اساتذہ سے لے کر والدین تک اور معاشرہ سے لے کر حکومت تک سب ہی کو ذہنی صحت کو اپنی ترجیحات میں رکھنا ہو گا۔یہ وہ مسئلہ ہے جس میں دوائیوں سے زیادہ انسانی رابطے اور رشتے کی اہمیت ہے۔
شفقنا اردو
ur.shafaqana.com
پیر،21 ستمبر2020