اتوار کو ہونے والی اے پی سی پر سب سے زیادہ شادیانے انڈیا میں بج رہے ہیں کیونکہ اندرونی محاذ اور سیاست کی آڑ میں اس بار نوازشریف نے وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی جو کارگل کے محاذ پر فوج کے خلاف کھیلا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیافوج مخالف ن لیگ کا بیانیہ 11 اپوزیشن پارٹیوں کا بھی بیانیہ بن گیا ہے؟ یا ملکی مفادات اور ملکی اداروں کے متعلق تحفظات کے حل کے لیے کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی بات ہو گی۔ٖفوج کو ملک کے اندر امن و امان برقرار رکھنے اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے سمیت دیگر امور کے لئے طلب کرنے میں پہل موجودہ حکومت نے نہیں کی۔ان راستوں کا انتخاب پچھلی حکومتیں 30 سال سے کر رہی تھیں۔انتخابات کے انعقاد سے لے کر حکومتوں کی بساط سمیٹنے تک پس پردہ نواز شریف اور آصف زرداری کے کردار سے کسے انکار ہے؟فوج ریاست کے ایک ادارے کے حیثیت سے معاونت کی انہی شرائط پر پچھلی کئی دہائیوں سے حکومتوں کے پیچھے کھڑی رہی ہے اس وقت نہ ن لیگ کو اعتراض تھا نہ پیپلز پارٹی کو۔ آج اگر حکومت وقت کے ساتھ وہ کھڑی ہے جو اس کی آئینی ذمہ داری ہےتو انہی سیاست دانوں کا اعتراض مد مقابل سیاست دان سے ہٹ کر لانے والے پرمنتقل ہو گیا ہے۔
بات ساری گزشتہ ہفتہ ہونے والی ایک ملاقات سے شروع بگڑی جب تقریباًڈیڑھ درجن پارلیمنٹرینز کو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک ملاقات کی دعوت دی۔ جس کا مقصدخطے کی موجودہ صورتحال اور گلگت بلتستان سے متعلقہ امور کو زیر بحث لانا تھااور اسے باقاعدہ صوبہ بنانے کے لیے قانون سازی کی راہ ہموار کرنا تھی۔بلاول بھٹو اورشہباز شریف نے اس موقع پر کچھ گلہ شکوہ کرنے کی کوشش کی جس سے باتوں اور لہجے میں تلخی آئی۔
اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف نے یہ بھی واضح کر دیا کہ الیکشن ریفارمز،نیب اور سیاسی معاملات حکومت نے دیکھنے ہیں فوج کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ بلکہ خبر تو یہ بھی ہے کہ زیادہ شکایتوں پر چیف نے کہا کہ نیب چیئرمین اور چیف الیکشن کمشنر انہوں نےتو نہیں لگائے۔بنظر غائر دیکھا جائے تو اس جواب میں اپوزیشن کا وہ سوال چُھپا ہے جس کا محور ملکی مفاد نہیں ذاتی مفاد ہے کہ کسی طرح ان کی نیب سے جان چھڑوائیں۔
دوسرے لفظوں میں ادارے کی طرف سے ان اپوزیشن رہنماؤں کو یہ پیغام ملا کہ باہمی مفاہمت کی جو باتیں طے ہو چکی ہیں ان سے زیادہ کی توقع رکھنا بے کار ہے۔جب یہ تفصیلات نواز شریف تک پہنچیں تو انہوں نے میدان میں اترنے کے لیے کمرکس لی اور اے پی سی میں شرکت کے لیے نہ صرف آمادہ ہو گئے بلکہ اپنی تقریر بھی تیار کرنا شروع کر دی۔ بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس اے پی سی سے اپوزیشن کے مابین اختلافات کی دراڑ بڑھنا شروع ہو جائے گی( بھلے شہبازشریف کہتے پھریں کہ اس بار انہوں نے سیمنٹ استعمال کیا ہے) کیونکہ اس میں بات حکومت ہٹانے یا نئے انتخابات کروانے سے ہٹ کراداروں کے خلاف چلی گئی ہے۔ریاست کے اندر ریاست کے بیان کو یوسف رضا گیلانی سے منسوب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ چکا ہے۔کیا ایسے ریمارکس حکومت اور ملک کے موجودہ نظام کو سمیٹنے کی طرف اشارہ ہے؟
ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین جو نواز شریف کے پرانے ساتھ رہ چکےہیں نے کہا کہ نواز شریف کی تقریر سیاست پر نہیں بلکہ فوج کے خلاف تھی۔نواز شریف کے اس نئے بیانیہ نے خود ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی رخنے ڈالے ہیں اور اس کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گےشاہد خاقان عباسی کے بقول نوازشریف نے پارٹی کو نہیں بتایا تھا کہ وہ تقریر میں کیا کہنے جا رہے ہیں اس سلسلے میں پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی۔شہباز شریف جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کے قائل ہیں ان کے لیے اس نئے بیانیہ کو اپنی ہی پارٹی میں لے کر چلنا کتنا مشکل ہو گا،اس کا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا کہ اے پی سی کے اندر کی کہانی نے خود اپوزیشن کی سیاست اور سیاست دانوں کو ایکسپوز کر دیا ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پیر کو وزیراعظم سے ملاقات میں بھی یہ بات کہی کہ فوج ضرورت پڑنے پر ہر حکومت کی مدد کرتی ہے لیکن ہمارا سیاست سے کوئی لین دین نہیں گویا اپوزیشن کی اے پی سی کو وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہو کرجواب دے دیا گیا۔
عوام میں بھی نواز شریف کی اس تقریر اور لب و لہجہ کو پسند نہیں کیا جا رہا۔ڈریں اس وقت سے جب قوم یہ پوچھنے اُٹھ کھڑی ہو کہ اگر یہ فوج زلزلے سے لے کر نالے صاف کرنے میں قوم کی مدد کر سکتی ہے تو سیاست کا گند کیوں نہیں صاف کر سکتی؟
شفقنا اردو
ur.shafaqana.com
منگل،22ستمبر2020