فرانسیسی سیاست اس وقت چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے ۔ عوام میں خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ جرائم اور بنیاد پرستی قابو سے باہر ہو جائے گی۔ رجعت پسند فرانسیسی رہنما مارین لی پین نے خبردار کیا ہے کہ فرانس سیکورٹی کے حوالے سے ایک تباہ حال جہاز کا منظر پیش کر رہے جو کہ بربریت میں ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس معاملے پر بائیں بازو کی جماعتیں بھی رجعت پسندوں کے ساتھ متفق ہیں۔ اگلے صدارتی انتخاب کے لیے گرین پارٹی کے متوقع امیدوار نے بھی عدم تحفظ کی اس فضا کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔
اس صورتحال کا حل حکومت نے علیحدگی پسند بل کو قرار دیا ہے جس کے تحت حکومت کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی گروہ کو اجازت نہ دے کہ وہ فرانسیسی شناخت کے متبادل کسی بھی مذہبی یا نسلی گروہ سے اپنی وابستگی اپنا سکے تاہم بل کے متعلق ابھی تک دیگر تفصیلات خفیہ رکھی جارہی ہیں ۔ اس بل کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دیگر اضافی ثقافتوں یا نسلی شناختوں کے بغیر بھی فرانس فرانس ہی رہے۔
مسلمانوں کارد عمل
فرانس میں بسنے والے مسلمانوں نے علیحدگی پسندی جیسی غیر مبہم اصطلاح کی مذمت کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے ان کے خلاف ہونے والی بدسلوکی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ا پیرس کی عظیم مسجد کے ناظم نامی اپنے ایک آرٹیکل میں شمس الدین حافظ نے لفظ علیحدگی پسندی کے خوفناک معنی کے طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگا۔
فرانسیسی کونسل برائے مسلم کے صدر محمد موسوی نے کہا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی بل کی بھرپور مخالفت کریں گے جو قانون
کے دائرے میں اپنی عبادات سرانجام دینے والے مسلمانوںکو نشانہ بنائے گا۔ مسجد لیان کے ناظم کمال قبطانی نے بھی عدم تحفظ کی اس فضا پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ اس علیحدگی پسندی جیسی اصطلاح کے خیال سے ہی پریشان ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ مسلمان تقسیم ہونے کی بجائے متحد ہونا چاہتے ہیں۔ اور میکرون انتظامیہ کی زیر نگرانی تیار کیا جانے والا یہ بل ” سیاسی اسلام کے خلاف جنگ” کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنائے گا۔
فروری میں ایک تقریر کے دوران میکرون نے کہا تھا کہ فرانسیسی معاشرے کا ایک حصہ اسلام کے نام پر سیاسی پراجیکٹ کی بنیاد رکھ رہا ہے ۔ اس موقع پر اپنی بیٹیوں کو تیراکی کی اجازت نہ دینے پروالدین کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ بہت سارے لوگوں کے خیال میں یہ بل ںہ صرف فرانس کی مسلم آبادی بلکہ مغربی یورپ میں بھی مسلمانوں بدنام کرنے کا سبب بنے گا۔
بل میں ایساکیا ہے؟
مجوزہ بل میں اس بات کا ذکر ہے کہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے اماموں پر پابندی عائد کی جائے گی اور فرانس کے تریبت شدہ اماموں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ عبادت گاہوں کو دی جانے والی بین الاقوامی امداد کو بھی کنٹرول میں کیا جائے گا اور اس کی سخت جانچ پڑتال بھی کی جائےگی۔ میکرون کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ رقم کہاں سے آرہی ہے اور کس مقصد کے لیے آرہی ہے۔
سات ستمبر کو فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینن اور سٹیزن شپ منسٹر مارلین شیاپا نے تصدیق کی کہ علیحدگی پسند بل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اس کی مزید تفصیلات جلد جاری کر دی جائیں گی۔ اس کی دیگر شقوں میں یہ سیکولرزم کے معاہدے پر دستخط بھی شامل ہوں گے اور اس کی پائمالی پر ریاست فنڈز کی فراہمی کو معطل کر دے گی۔ اس کے علاوہ شادی سے پہلے کنوارے پن کا ڈاکٹری سرٹیفیکٹ جاری کرنے پر سزا بھی دی جائے گی۔ وزارت تعلیم کی رائے کے بغیر اس بل میں ای ایل سی او پروگرام کو بھی ختم کردینے کی شق شامل ہے ۔ ای ایل سی او پروگرام کے تحت کسی بھی غیر ملی زبان میں تعلیم دینے کی اجازت تھی۔ حکومت کے اس اقدام سے 80،000 طلبا کی تعلیم متاثر ہوگی۔ فرانسیسی صدر اکتوبر کے اوائل میں اس بل کو پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وسیع حمایت
عدم تحفظ اور اسلاموفوبیا کا خوف اقتدار سے باہر سیاسی پارٹیوں اور سیاسی پنڈتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ میکرون حکومت کے وزیر بھی اسی طرح کے جذبات لیے پھررہے ہیں اور اس میں دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔
اسلام کے خلاف اس طرح کی وارننگ اور عبارات و جملے فرانس کی سیاست کا اہم حصہ بن چکے ہیں ۔ اس طرح کے جملے اپنے انر انتہا کی منفیت لیے ہوئے ہیں اور فرانس میں ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے ملک رومن بادشاہت کی طرح تباہ ہونے کو ہے اور وحشی اس پر قبضہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
کھوکھلا ڈھونگ
حقیقت یہ ہے کہ فرانس کی عدلیہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ بڑے جرائم کی شرح میں گزشہ تین سالوں اور دہائی کی نسبت کمی دیکھنے کو ملی ہے گزشتہ دہائی کی نسبت اس دہائی میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔ تاہم علیحدگی پسند بل کے بارے میں تمام تر تیاریاں مکمل ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بل میں اس بات کو نہیں چھپایا گیا کہ اس کا اصل نشانہ مسلمان ہیں۔
آغاز
یہ تمام عمل 2017 میںاس وقت شروع ہوا جب میکرون نے اپنے ایک ٹیلی وژن خطاب میںکہا” سیکولرزم ہماری ڈھال ہے” ۔ اس موقع پر انہوںنے اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کے حق کی بات نہیں کی بلکہ ان لوگوںکو نشانہ بنایا جو مذہب کے نام پر ریاست کے قوانین سے روگردانی کرتے ہیں۔ اس وقت کے بعد سے مسلمانوںکے خلاف اس طرح کےجذبات میںشدت دیکھنے کو ملی۔
تاہم میکرون نے ایک مرتبہ مسلمانوںسے خطاب کرتے ہوئے انہیںفرانس میںاسلامی ڈھانچے پر کام کرنے کی تنبیہہ بھی کی اور کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے مذہب کے اندر ہی تقسیم نہ ہوں اور اسی بات کے کچھ عرصہ بعد یعنی اکتوبر 2019 میںمیکرون نے مسلمانوںکو تقسیم کرنے کےلیے اسلامی علیحدگی پسندی جیسی اصطلاحکا خودسہارا لے لیا ۔
کرسٹوفر کاسٹینر جو اس وقت فرانس کے وزیر داخلہ تھے ، سلام کے خلاف جنگ کرنے کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ انہوںنے اس مقصد کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹل سیل کے قیام کا بھی مطالبہ کیا جو کہ مسلمان خطرے کے تدارک کے لیے کام کرسکے۔
فرانسیسی حکومت کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر داخلہ مارلین شیاپا کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے شہری دوست اس بات کے قائل ہوگئے کہ ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہیںکیا گیا تو تشدد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس بات کے پیچھے ان کا واضح اشارہ نسلی اقلیتوں کے رہن سہن اور ان کے طرز زندگی سے فرانسیسی شہریوں کو اپنی ثقافت کی تبدیلی کے لاحق خطرات کی طرف تھا۔
بل کو اکتوبر تک مؤخر کر دیا گیا ہے کیونکہ ابھی یہ مکمل نہیںہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں فرانسیسی آئینی کونسل کی جانب سے اس کی بعض شقیں حذف کر دی جائیں گی۔