بھارت کے صوبہ راجستھان کے ضلع جودھ پور کے ایک گاؤں میں 9 اگست کو پاکستان سے نقل مکانی کر کے جانے والی ہندو فیملی کی پراسرار حالات میں اجتماعی خود کشی کا ڈرامہ اس وقت اپنے انجام کو پہنچا جب اسی خاندان کی زندہ بچ جانے والی ایک خاتون نے الزام لگایا کہ یہ خود کشی نہیں بلکہ قتل کا کیس ہے ۔متاثرہ خاندان کی ایک بیٹی نے ضلع سانگھڑکے پولیس اسٹیشن میں آر یس ایس اور بی جے پی کے خلاف ایف آئی آر کٹواتے ہوئے الزام لگایاکہ اس کے خاندان کو پاکستان کے خلاف منفی بیان نہ دینے اور واپس پاکستان جا کر’’را ‘‘کے لیے جاسوسی پر آمادہ نہ ہونے کی سزا دی گئی ہے۔یہ 12 افراد پر مشتمل خاندان 2015 میں پاکستان سے یہاں منتقل ہوا تھا۔امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ خاندان نے رات زہریلا کھانا کھا یا اور بعد میں انہیں زہریلا انجکشن لگایا گیا۔ بد نصیب خاندان کی زندہ بچ جانے والی ایک خاتون کے بازو پر سرنج کانشان نہیں پایا گیا۔
پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن انچارج ڈاکٹر رامیش کمار نے اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات میں واقعہ کی تفصیلات بتایئں اور ہندو کمیونٹی کی تشویش سے آگاہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے ڈاکٹررامیش کمار کوبتایا کی واقعہ کے فوراً بعد سے حکومت بھارت میں موجود اپنے سفارت کاروں سے رابطہ میں ہےاور حکومت نے واقع کی تفصیلات، ایف آئی آر کی کاپی اور پوسٹ مارٹم کے وقت اپنے نمائندے کی موجودگی کی اجازت مانگی لیکن نئی دلی حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیاتاہم پاکستان واقعے کی مکمل تفصیلات اور رپورٹ کے لیے بھارتی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔
اس واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے ہندو کمیونٹی نے سندھ میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور پہلی بارپاکستان ہندو کونسل نے پاکستان بھر سے ہندو کمیونٹی کو احتجاج کی کال دیتے ہوئے انہیں اسلام آباد بلا لیا جہاں وہ دو دن بھارتی سفارت خانہ کے سامنے احتجاج کےلئے بیٹھے رہے۔ مظاہرین نے ہائی کمیشن کے گیٹ سے ان کے نمائندے کو اپنی قرارداد جمع کرائی اور قرارداد کی ایک کاپی بھارتی ہائی کمیشن کے گیٹ پر بھی لگائی ۔ڈاکٹر رامیش کمار کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کو اس ظلم کا نوٹس لینا چا ہئے۔ اگر امریکا یا برطانیہ کا کوئی شہری اس طرح مارا جاتا تو وہ کبھی بھی خاموش نہ رہتے۔ انڈیا کو اس قتل اور سمجھوتہ ایکسپریس حادثے کی تحقیقات سب کے سامنے لانی چاہیے۔
وفاقی وزیر سائنس اورٹیکنالوجی فواد چودھری نے احتجاجی دھرنے کے شرکاءسے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ حکومت معاملہ کی سنگینی سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس اندوہناک اجتماعی قتل پر ہندو کمیونٹی کے دکھ میں شامل ہے۔شفاف تحقیقات کے مطالبہ میں بھی حکومت آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔لیکن بھارت ابھی تک مطلوبہ معلومات دینے سے قاصر ہے۔فوادچودھری نے مظاہرین کو تجویز دی کہ اس احتجاج کے بعد آپ پر امن طریقے سے واپس لوٹ جایئں جس کے بعد مظاہرین پرامن طور پر لوٹ گئے۔
پاکستان سے ہندو کمیونٹی اکثر بھارت جاتی رہتی ہے۔حال ہی میں 14 افراد پر مشتمل ایک اور خاندان نے بھی 6ماہ کے بعدبھارت سے واپسی کی ہے۔واہگہ بارڈر پر رپورٹر سے بات کرتے ہوئے خاندان کے سربراہ نے بتایا کہ کنہیا لال اور ننکرام نے بتایا کہ وہ بہتر اور خوشحال مستقبل کا خواب لے کر بھارت گئے تھے لیکن وہاں غربت اور لاچاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی ہندوجودھ پور میں پھنسے پاکستان واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔
شفقنا اردو
ur.shafaqana.com
ہفتہ،26 ستمبر 2020