یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ ظالم کو جب بھی آئینہ دکھایا جائے وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور کچھ اسی طرح کا معاملہ بھارت کے ساتھ بھی ہے۔ جہاں کہیں کشمیر کی بات ہو بھارت وہاں سے دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے اس طرحبھاگنے سے حقائق تبدیل ہوجائیں گے؟ کیا یہ حقیقت بدل جائے گی کی بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے؟ کیا دنیا بھارت کے جابرانہ قبضے کو کشمیریوں کی رضا سمجھ لے گی۔ یقینا ہرگز ایسا نہیں ہوگا بلکہ بھارت کا فرار دنیا کو سمجھا رہا ہے کہ وہ ایک غاصب ملک ہے اور اس نے زبردستی کشمیر پر قبضہ جما رکھا ہے۔
کشمیر پر بھارت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریرشروع کی اور کشمیر کا نام لیا تو بھارتی مندوب فورا ہی واک آؤٹ کر گئے۔وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے موقع پر بھارتی وزارت خارجہ کے جونئیر سفارت کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود تھے تاہم مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا ذکر ہونے کا اندازہ ہونے کے سبب وہ پہلے ہی ہال سے باہر چلے گئے۔
اس سے قبل شنگھائی تعاون کی تظیم کے اجلاس کے موقع پر بھی جب پاکستان کی سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف نے پاکستان کے نئے نقشے کے ساتھ کشمیر کی بات کی تو اجیت دوول نے وہاں سے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور اس کو احتجاج کا نام دیا تاہم میزبان روس کی جانب سے بھارتی مؤقف کو مسترد کر کے پاکستانی مؤقف کی تائید کی گئی جس سے بھارت کی مزید سبکی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کب تک بین الاقوامی فورمز سے اس طرح بھاگتا رہے گا اور بھارت کس سے بھاگ رہا ہے؟
بھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیراعظم نریندر مودی کی اسلاموفوبیا سے متعلق ایک طویل تاریخ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام ہی اسلاموفوبیا کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ اس جماعت کے کثیرالجہتی مقاصد متعین کیے گئے تھے اور آج بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے نریندر مودی کوششیں کر رہا ہے۔آر ایس ایس کے مقاصد میں بھارتی عوام خصوصاً نوجوانوں کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کرنا، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو فوجی تربیت دینا اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنا شامل ہے۔ آر ایس ایس کے ہی ایک تربیت یافتہ کارکن نتھو رام گاڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کیا تھا۔ اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی نے ہندوستان کی تقسیم کیوں قبول کی؟ اس کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن یہ جماعت رنگ بدل بدل کر اپنی سیاست کرتی رہی اور اب اس کا سیاسی چہرہ بی جے پی ہے۔
بی جے پی میں مرارجی ڈیسائی اور واجپائی جیسے اعتدال پسند رہنما بھی موجود رہے لیکن ان کے بعد بی جے پی پر اسلاموفوبیا کا شکارہندو انتہاپسند قیادت کا کنٹرول قائم ہو گیا۔ پہلے ایل کے ایڈوانی نے رتھ یاترا کے نام پر ایک جلوس کی شکل میں بابری مسجد کو شہید کرایا، اسی دوران نریندر مودی سیاست کے افق پرابھرنا شروع ہوا اور وہ بڑھتے بڑھتے بھارتی ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ ریاست گجرات میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسیوں نے پورے بھارت کو مسلمانوں کے خلاف جہنم میںتبدیل کر دیا ہے۔ یہی سوچ ہے جو احمد پٹیل کے خلاف پروپیگنڈا کرتی ہے کہ خبردار اسے ووٹ نہ دینا ورنہ گجرات میں مسلمان وزیر اعلی بن جائے گا۔ بھارت اس وقت اسلاموفوبیاکا گڑھ بن چکا ہے اور اس اس سارے عمل میںآخری رکاوٹ کشمیر ہی تھا اس کو ختم کرنا بی جے پی کے سیاسی نظریے کے لیے ضروری تھا ۔ بھارتی مقبوضہ جموںو کشمیر کو توڑنے کا جس طرح سے رد عمل بھارت میں ہوا اس نے کشمیریوںکو بھارت سے مکمل طور پر دور کر دیا ہے۔ اس سارے عمل سے بھارتی ہندوتوادیوں کی مسلمانوںاور کشمیریوں کے لیے نفرت ابل ابل کر سامنے آ رہی ہے۔ کشمیر جا کر جگہ خریدنے، وہاں نوکری تلاش کرنے اور کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے کے ارادے بھارت کے کونے کونے سے سامنے آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پرانی مسلمان مخالف دشمنی نکالنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔
کشمیر کے لوگوںکی آزادی کی مانگ کو ہندوستانی قانون ساز مجلس نے اپنے قدم سےا ور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے اپنی نفرت سے جائز بنادیا ہے۔ کشمیریوںکو بھی اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ بھارت کی کسی سیاسی جماعت کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں اس لیے کسی پر بھروسہ کرنا بے سود ہے۔ بھارت یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے کشمیر کو ساتھ ملا لیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اب مکمل طور پر ہندوستان سے الگ ہوچکا ہے ۔ تم کشمیریوں کی زمین پر زبردستی قبضہ تو کر سکتے ہو ۔ تم اس لمحے فاتح ہو تم انہیں آنکھیں تو دکھا سکتے ہو مگر تم ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ بات نہیںکر سکتے۔ تم کب تک اس بات سے بھاگو گے دنیا سے بھاگو گے یا کشمیریوں سے یا اپنے ضمیر کی آواز سے۔
اردو شفقنا
ur.shafaqna.com