اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے عمران خان کے خطاب پر ملک بھر میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیاہے۔ مختلف ماہرین کی آراء اس ضمن میں مختلف رہی۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر نذیر حسین کے مطابق جیسا کہ ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں عمران خان کی تقریر مغربی اثر سے مکمل آزاد تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مکمل خارجہ پالیسی تبھی مرتب کر سکتے ہیں جب تک ہم اپنے اندرونی سیاسی خلفشار اور سیکورٹی تنازعات کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوجاتے۔
تحریک انصاف کے سپورٹرز کے مطابق یہ ایک متوازن خطاب تھا جو کہ دنیا کی فورمز پر ایک ریاست کے سربراہ سے توقع کیا جاتا ہے اور عمران خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مکمل عکس بیان کیا ہے تاہم تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اس خطاب میں عمران خان نے موجودہ دنیا کو درپیش بہت سارے مسائل کو نظر انداز کیا ہے۔ ڈاکٹر نذیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم صاحب نے بھارتی مقبوضہ جموں اور کشمیر پر ایک مرتبہ پھر پاکستانی مؤقف کو دہرایا ہے اور دنیا کو باور کرایا ہے کہ اس خطے کے امن کو کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کی وجہ شدید خطرات لاحق ہیں ۔
طلعت مسعود نے مزید کہا کہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے امریکہ پاکستان سے دور ہوچکا ہے تاہم افغانستان امن میں پاکستان کے کردار نے امریکہ کے ساتھ ان تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانے میں مدد دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کی اس خطے میں کیا اہمیت ہے جب کہ پاکستان بھی اس بات سے باخبر ہے کہ دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات اس کے مفاد میں ہیں۔ اور پاکستان یہ کبھی نہیں چاہتا کہ بیجنگ کے ساتھ اس کے سٹریٹیجک تعلقات کی وجہ سے واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات پر کوئی برا اثر پڑے۔
تاہم مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین عاصم سلیم باجوکی جانب سے عمران خان کی تقریر کو سراہنے سے بہت سارے سوالات پیدا ہوگئےہیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ عمران خان صاحب نے گزشہ 14 ماہ میں اقوام متحدہ میں سوائے دو تقاریر کرنے کے اور کیا کیا ہے؟ کیا انہوں نے کشمیر کے معاملے پر کسی ایک ملک کا دورہ بھی کیا ہے؟ کیا انہوں نے اس مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس بلایا ہے؟ بھارت نے جموں و کشمیر میں ظالمانہ کرفیو اور معلومات کی فراہمی کو کیوں روک رکھا ہے؟ بھارت نے پاکستانی خطرے کو کسی خانے میں کیوں نہیں رکھا؟ تنقید نگاروں کے مطابق احسن اقبال کے سوالات درست ہیں اور موجودہ حکومت کو ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
نوجوانوں کے نمائندہ اور خارجہ پالیسی کے ایک طالبعلم قیصر محمود کے مطابق پاکستان کو مختلف ذرائع سے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیں اور مسلم امہ کی رہنمائی کرنا چاہیے ۔ محمود تاہم اس بات پر خوش تھے کہ وزیر اعظم صاحب نے موسمیاتی تبدیلیوں، اسلاموفوبیا اور ترقی یافتہ اور تیسری دنیا کے ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے فرق پر بھی بات کی۔
بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ریسرچ سکالر اور ایڈویکٹ امجد عبداللہ کے مطابق سیاست ایک مشکل کام ہے ۔ اگر حکومت ایک آزاد خارجہ پالیسی لاگو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو اندرونی چلینجز پر قابو پانا ہوگا ۔ جب تک ہماری اندرونی سیاست کے مسائل حل نہیں ہوتے ایک آزاد خارجہ پالیسی کا تصور محال ہے۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com