آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف درخواست ضمانت خارج ہونے پر لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کرلیے گئے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حید ر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور تفصیلی دلائل سننے کے بعد ضمانت خارج کرنے کا فیصلہ سنایا۔نیب اہلکاروں نے ضمانت منسوخ ہوجانے کے بعد شہبازشریف کو احاطۂ عدالت سےحراست میں لے لیا، اس موقع پر عدالت کے باہر موجود نون لیگ کے کارکنا ن مشتعل ہوگئے اور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی ۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے فورا بعد مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’99 کمپنیاں شہباز شریف کی نہیں نکلیں، یہ سینکڑوں فرینچائز نہی نکلیں، بلکہ عاصم سلیم باجوہ کی نکلی ہیں نیب اس معاملے میں کیوں خاموش ہے؟‘مریم نواز نے نیب کے کردار کو ’جانبدار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’نیب پشاور بی آر ٹی، پاکستان تحریک انصاف کی کرپشن کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی؟‘انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر کی بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے سر توڑ کوششوں کے باوجود اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔’ان کی بیوی کو اشتہاری بنا دیا گیا، ان کے بیٹوں پر ریفرنس بنائے گئے اور حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن شہباز شریف اڑے رہے‘۔
مریم نواز کی یہ بات قابل غور ہے کہ کیا شہباز شریف کو نواز شریف سے الگ کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں؟ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں مسلم لیگ ش کی گونج تھی اور افواہیں اڑائی جا رہی تھیں کہ شہباز شریف اپنے بھائی سے اختلافات کی بنا پر الگ ہور ہے ہیں اور جلد ہیں مسلم لیگ ش کا قیام عمل میں آئے گا۔ اور اس اختلاف کی بڑی وجہ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت موقف تھا جب کہ شہباز شریف اس معاملے میں اپنے بھائی سے اتفاق نہیں کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اپنے نظریات تبدیل کریں۔ شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اختلافات کی خبروں نے اس وقت زور پکڑا جب نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں کھلے بندوں اسٹیلبشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کی نسبت ان کا رویہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق مکمل طور پر الگ ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سےکسی قسم کی لڑائی مول لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری پر بہت سارے سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ آخر شہباز شریف کی گرفتاری کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتےہیں۔
ان محرکات کی سب سے بڑی وجہ ممکنہ طور پر یہ ہے کہ انہوں نے مقتدر قوتوں کی اس بات سے یکسر انکار کر دیا ہے کہ وہ ن لیگ سے الگ ہو گر” ش” لیگ بنائیں۔ شہباز شریف اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ نواز شریف کے بغیر ان کا کوئی وجود نہیں اور ن لیگ کو تقسیم کر کے وہ اپنی سیاست سے مکمل طور پر ہاتھ دھو بیٹھیں گے یہی وجہ ہے کہ تمام تر افواہوں کے باوجود شہباز شریف نے خود کو ن لیگ سے الگ نہیں کیا۔ اس موقع پر اگر ن لیگ تقسیم ہو جاتی تو نواز شریف کا دم خم ختم ہوجاتا تاہم شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی بات نہ مان کر اپنے لیے مسائل کھڑے کر لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری مقتدر قوتوں کی جانب سے ان کے لیے ایک پیغام ہو کہ اگر وہ ان کی بات نہیں مانیں گے تو ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتاہے۔
شہباز شریف کی ممکنہ گرفتاری کی دوسری بڑی وجہ گلگت بلتستان کے انتخابات بھی ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں حکومت کو اس بات سے آگاہ کر چکی ہیں کہ وہ کسی صورت میں گلگت بلتستان میں دھاندلی قبول نہیں کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں حد سے زیادہ محتاط دکھائی دے رہی ہے ۔ مقتدر قوتیں جانتی ہیں کہ شہباز شریف گلگت بلتستان کے انتخابات میں ن لیگ کی انتخابی مہم انتہائی منظم اور بہتر طریقے سے چلا کر حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں حکومتی جماعت کو گلگت بلتستان کو کھل کر کھیلنے کو موقع مل جائے گا۔ نواز شریف تو کسی صورت میں پاکستان آنے سے رہے مگر شہباز شریف کی موجودگی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com