اسپیکر قومی اسمبلی اس قیصر نے گلگت بلتستان کے آنے والے عام انتخابات پرپارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کی میٹنگ بلائی تاکہ وہاں آنے والے انتخابات کی شفافیت پر اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کے لیے ممکنہ انتخابی اصلاحات پر بات ہو سکے۔ شفافیت ہی وہ نکتہ تھا جس پر عسکری حکام کے ساتھ ملاقات میں بلاول اور دوسری پارٹیوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔بعد میں اے پی سی کے پیش کردہ 26 نکات میں بھی گلگت بلتستان کے الیکشن میں شفافیت کے حوالے سے ممکنہ حکومتی مداخلت پر سخت موقف دیا گیا ۔اسپیکر کی میٹنگ شائد اسی تلخی کو زائل کرنے کی ایک کوشش تھی لیکن اپوزیشن کے عدم تعاون پر یہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
یہ قدم اس وقت اُٹھایا گیا جب گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔24 ارکان کے انتخاب کے لئے الیکشن کا انعقاد 25 نومبر کو ہو گا۔ اور اس میں مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی،تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتں حصہ لے رہی ہیں۔واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں گزشتہ حکومت مسلم لیگ ن کی تھی جس کی مدت24 جون کوختم ہوئی لیکن کوروناکے باعث18 اگست کو ہونے والے الیکشن ملتوی کر دئیے گئے۔ گلگت بلتستان کے یہ الیکشن ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب اسے ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کے لیے حکو مت اور اپوزیشن میں مشاورتی عمل کے آغاز کی بات کی جا رہی ہے۔ ایسا وہاں کے لوگوں کی دیرینہ خواہ بھارت کے ساتھ موجودہ تلخی اور سی پیک کی ضرورتوں کے تناظر میں کیا جائے گا۔
پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس سے پہلے ہی اپوزیشن یہ اعلان کر چکی تھی کہ وہ پارلیمان کے اندر اور باہر حکومت کے کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرے گی اور دوسرا سپیکر قومی اسمبلی کو ایسی کسی میٹنگ کا اختیار نہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہبا زشریف نے گرفتاری سےپہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان کا معاملہ کشمیر کاز کے ساتھ وابستہ ہے۔تحریک انصاف کی حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اسے استعمال نہ کرے۔ حکومت کے آمرانہ رویے کی وجہ سے اس کے ساتھ کسی جگہ تعاون نہیں کیا جائے گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ا سپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزراء کو گلگت بلتستان کے انتخابی عمل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ہم اس حکومتی مداخلت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی صرف گلگت بلتستان کے الیکشن کمیشن کے ساتھ الیکشن کی شفافیت پر اپنے تحفظات کے حوالے سے بات چیت کرے گی۔پیپلز پارٹی کے قمرزماں کائرہ نے اسپیکر قومی اسمبلی کی اس کوشش کو ان کی سیاسی وابستگی کے حوالے سے سخت تنقید کانشانہ بنایا۔ ایک نیوز کانفرنس میں پی پی پی رہنما فرحت اللہ بابر اور نیئر بخاری نے زور دے کر کہا کہ 15نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ایجنسیوں اور ریٹرنگ آفیسر تعنیات ہونے والے عدالتی ممبران کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت لوگوں میں صحت کارڈ تقسیم کر رہی ہے اور لوگوں پر ووٹ کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ جو پری پول رگینگ میں آتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ الیکشن خاص اہمیت کے حامل ہیں اور منتخب اسمبلی ہی گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزراء کے پاس الیکشن معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ کام گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر کا ہے کہ وہ تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر الیکشن کے لیے ضابطہ اخلاق طے کرے۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا شور شرابا گلگت بلتستان میں شکست کے خوف سے ہے۔وہ جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگ آنے والے الیکشن میں انھیں مسترد کر دیں گے جیسا کہ 2018 کے انتخابات میں باقی پاکستان کے لوگوں نے کیا تھا۔ الیکشن سے ایک ماہ قبل انتخابات کے عمل کو سبو تاژ کرنے کی اپوزیشن کی کوشش سوچی سمجھی سازش ہے۔ نواز شریف کی تقریر اسی کا حصہ ہے۔اپوزیشن الیکشن ریفارمز کے عمل سے اسی لیے بھاگتی ہے کہ بعد میں دھاندلی کا الزام لگا سکے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو فوج کے نگرانی کے بغیر انتخابات کا انعقاد امن و امان کی صورتحال کے لیے ہمیشہ بڑا چیلنج رہا ہے۔آج کل ملک میں فرقہ وارایت کو ہوا دینے والے عناصر کی سازشوں کا تواتر سے ذکر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں سکیورٹی اداروں کے بارے میں منفی سوچ کا پرچار کہیں کسی بڑی سازش کا حصہ تو نہیں؟ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف جذبات کو ہوا دینا کہیں پانچواں صوبہ بنانے کی قومی خواہش پر دشمن کا وار نہ بن جائے۔حکومت اور اپوزیشن کو اپنے سیاسی اختلافات میں اس پہلو کو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا۔
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
منگل،29 ستمبر2020