کرونا وائرس پوری دنیا کے لیے صحت کی ایمرجنسی کا معاملہ اختیار کر گیا ہے اور اب تک لاکھوں افراد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کرونا کے مریضوں سے ہسپتال بھرے پڑے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹرز اور ریسرچرز اس بات پر غور کرر ہے ہیں کہ کیا اجتماعی قوت مدافعت اس وبا کا رستہ روک سکتی ہے؟
ٓاجتماعی مدافعت سے مراد ایسی صورتحال ہے جس میں آبادی کا ایک بہت بڑا تناسب وائرس کا شکار ہو چکا ہو اور اس کے مزید پھیلاؤ کو مشکل بنا رہا ہو۔ حالیہ ہفتوں میں کئی ایسے سروے کیے جا چکے ہیں جو بتا رہے ہیں کہ اگر مکمل ملک کی حد تک نہ بھی تب بھی چند شہر کرونا کے خلاف اس طرح کی مدافعت پیدا کر چکے ہیں۔
ریسرچرز بنیادی طور پر اینٹی باڈیز پر غورو فکر کر رہے ہیں جو کہ ہمارے جسم میں مدافعت کا ایک قدرتی نظام ہے اوران اینٹی باڈیز سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بندہ متاثر ہے یا نہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ایک دلچسپ معلومات حاصل ہوئی ہے ۔کراچی میں ایک مشہور ادارے کے ایپی ڈرمالوجسٹس نے مئی اور جولاجی کے مابین 1675 لوگوں کا نمونہ لیا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ ملک میں وبا اپنے اختتام کی طرف کیوں رواں دواں ہے۔
اس رپورٹ کو تیار کرنے والی ڈاکٹر ثمرین زیدی کے مطابق ان نمونوں سے یہ بات معلوم ہوئی ہے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں اس وبا کی شدت بہت مختلف ہے بلاشبہ ہم بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں لیکن ہمارے ہاں اموات کی شرح بہت کم رہی ہے
جس وقت کرونا وائرس نے ابتدائی طور پر پاکستان میں اپنا سر اٹھایا تو بہت سارے خدشات نے جنم لیا کہ 22 کروڑ آبادی کے اس ملک میں جہاں نہ تو صحت کی مناسب سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی مناسب تعدار میں وینٹی لیٹرز دیستیاب ہیں ،وہ کرونا کا مقابلہ کیسے کرے گا۔ تاہم جب کرونا اپنی انتہا کو پہنچا اور فیس بک پر پلازما عطیہ کرنے کی درخواستوں کی بھرمار ہوگئی تو اچانک ہی اموات کی شرح گر گئی۔
زیدی کی ٹیم نے پتا لگایا کہ قریبا 36 فیصد لوگ اس وبا کے خلاف اپنے اندر قوت مدافعت پیدا کر چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ انسانی جسم ان جرثوموں سے لڑنے کے لیے اپنے آپ کو مسلح کر چکا ہے۔ ان حاصل شدہ نمونوں میں ایک فارماسوٹیکل کمپنی کے ملازمین کے نمونے بھی شامل تھے اور پتا چلا کہ اس کمپنی کے 50 فیصد ملازمین کرونا کا شکار ہیں۔ تاہم جب مکمل نتائج آئے تو ہم حیران رہ گئے اور کمپنی کے ملازمین سے پوچھ گچھ کے لیے گئے تو پتاچلا کہ لوگوں میں کرونا کی محض معمولی علامات ظاہر ہوئی ہیں جن میں ایک آدھ دن کا بخار شامل تھا۔ تازہ ترین ڈیٹا کی بنیاد پر اس ریسرچ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ تقریبا 60 فیصد لوگ کرونا کے خلاف مدافعتی لیول حاصل کر چکے ہیں۔
اسی طرح کا ایک مطالعہ برازیل کے شہر مناؤس میں بھی کیا گیا ہے جہاں مئی میں کرونا اپنی انتہا پر پہنچا اور پھر اچانک اموات کی تعداد کم ہونا شروع ہوگئی اور اس کی وجہ بھی اجتماعی مدافعت ہی بتائی جارہی ہے۔ مذکورہ شہر میں کیے گئے سروے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 60 فیصد لوگوں اینٹی باڈیز کی موجودگی پائی گئ۔ ماہرین ابھی اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آکر آبادی کا کتنا حصہ اجتماعی مدافعت پیدا کرنے لیے مناسب ہے تاہم عمومی طور پر یہ تناسب 60 سے 70 فیصد تک ماناگیا ہے۔ پولیو، چیچک اور دیگر وبائی امراض کی ویکسینز کرونا کے خلاف مدافعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
تاہم یہ دونوں سروے معذوری کا شکار ہیں اور اس کی وجہ ان کے نمونوں کا سائز ہے جو کہ گو سینکڑوں کی تعداد میں ہے ایک بڑے شہر کے لیے ناکافی ہے۔ زیدی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مطالعہ کی محدودیت کے بارے میں کھلے ہیں اور ہم نے اس بارے میں پہلے ہی دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں کہ ہمارے نمونوں کا سائز کراچی کی 20۔5 ملین سے 30 ملین آبادی کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ اس لیے اس مطالعے کے مصنف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سروے کو قومی سطح پر نافذ کروائے تا کہ اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ اجتماعی مدافعت کام کر رہی ہے یا نہیں۔
دوسری جانب اگر اس کو صرف تعداد سے ماپا جائے تو یہی اجتماعی مدافعت خوفناک رخ دھار سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی کوریا میں روزانہ کی بنیاد پر 50 نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اگر ان کیسز کو اگلے ہزار دن کے لیے روک لیا جائے جو کہ کم از کم تین سال کا عرصہ بنتا ہے تو یہی کیسز 50،000 سے تجاوز کر جائیں گے جو کہ آبادی کا 0۔1٪ ہیں ۔ اسی طرح امریکہ کو دیکھ لیں جو کہ 320 ملین سے زائد آبادی کا ملک ہے تو اس کو 60 فیصد کی حد تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ لگ جائین گے اور اس دوران کئی ہزار اموت ہو سکتی ہیں۔ اور خاص طور پر غریب ممالک کے لیے یہ صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر اجتماعی مدافعت کب تک قائم رہ سکتی ہے اور بہت ساری رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدافعت صرف چند ماہ میں ختم ہوسکتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سارے لوگ کرونا سے دوبار متاثر ہوئے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ان میں اینٹی باڈیز تیزی سے ختم ہوئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ اجتماعی مدافعت کوئی پائیدار چیز نہیں اور یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ زیدی کے مطابق ڈاکٹروں نے پاکستان میں کرونا کی ہلکی قسم پائی جانے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسا کیوں ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کی وجہ دوسرے انفیکشنز ہوں اور ان انفیکشنز کی وجہ سے ہمارے لوگوں میں مدافعت پیدا ہوگئی ہوں۔