دنیا کے 70 سے زیادہ ممالک میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹر نیشنل نے اپنا انڈیا آفس بند کر دیا ہے۔ ادارے کے سینئر ڈائریکٹر راجیت کھوسلہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں ان کی تنظیم کو ناقابل بیان مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے بہت منظم طریقے سے ہراساں اور خوف زدہ کیا جا تا ہے۔ حکومت نے دھیرے دھیرے تنظیم کےتمام اکاونٹس منجمد کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے ملازمین کوتنخواہیں نہیں دی جا پارہیں۔ اسٹاف کم کر نے اور ملک میں اپنا تشہیری اور ریسرچ ورک کو بھی ترک کر نے پر زور دیا جاتا ہے۔ایمنٹسی انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکیٹر وینش کما ر کے مطابق انسانی حقوق کی تنطیموں سے بغیر ثبوت کے جرائم پیشہ افراد جیسا سلوک کرنے کا مقصدخوف و ہراس کی فضا پیدا کرناہے۔تاکہ تنقید کا راستہ بند کیا جا سکے۔ دوسری طرف ایمنٹسی انٹرنیشنل کے سربراہ گ ڈیوڈ گریفتھ نے لندن میں واضح کیا کہ تنطیم بھارتی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرے گی۔ بھارت کو اپنے الزامات کا ثبوت دینا چاہیے تاکہ ہم یہ عدالتی جنگ لڑ سکیں۔
ایمنسٹی انڈیا کے مطابق بھارت کی حکومت انسانی حقوق کی تنظیموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق تحقیقات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا جاتاہے۔چاہے وہ دہلی فسادات کی بات ہو یا جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو۔ اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں ایمنٹسی نے فروری میں دہلی فسادات میں بھارتی پولیس کو فسادیوں کا سہولت کار قرار دیا تھا جس میں 50سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔یہ فسادات ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان پھوٹے تھے اور مسلمانوں کے جان و مال کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔اسی طرح5 اگست 2020 کو جموں و کشمیر کے انضمام کا سال مکمل ہونے پر ایمنٹسی نے حکومت سے وہاں انسانی حقوق کی اور انٹر نیٹ سروسز کی بحالی کا تقاضا کیا تھا۔
دوسری طرف بھارت کی حکومت نے ایمنٹسی کے اس بیان کو رد کرتے ہوئے کہا ہےکہ یہ سب حقائق سے بعید باتیں ہیں بلکہ ایمنسٹی نے بیرونی امداد سے متعلق قوانین کا غلط استعمال کیا ہے۔وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق بھارت کے قوانین کسی بیرونی امداد سے چلنے والے ادارے کو ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے۔ اس قانون کا اطلاق ایمنٹسی اور تمام دوسری تنظیموں پر ہوتا ہے۔ایمنٹسی پر غیر ملکی فنڈز ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے بھی الزامات لگائے گئے ہیں۔حکومت کے مطابق انسانی حقوق کا واویلا کرنے کا مقصد ان غیر قانونی مالی بے ضابطگیوں سے توجہ ہٹانا ہے۔
بھارت میں گزشتہ کچھ سالوں میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔بی جے پی کی حکومت میں متعصب ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔پولیس بھی ان ہنگاموں میں شدت پسندوں کا ساتھ دیتی ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں بے گناہ کشمیری مردوں،عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کودوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرح ایمنٹسی بھی رپورٹ کرتی رہتی ہے۔ان معاملات پر چھپنے والی حالیہ دو رپورٹوں سے عالمی سطح پردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کا امیج خراب ہواہے۔ یہاں اظہار رائے پر لگنے والی پابندیوں کے نام پر عوام کی آواز دبائی جاتی ہے۔اور دنیا کو سب اچھا کی جھوٹی خبریں دی جاتی ہیں۔
بھارت کی اپوزیشن پارٹی کانگرس کےرہنما ششی تھرورنے بھی حکومتی نکتہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا نے دنیا کے سامنے انڈیا کو سیکولر ڈیموکریسی کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ ایمنسٹی جیسی تنظیمیں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بھی مثبت کام کر رہی ہیں ۔ان پر پابندیاں لگانے سے ملک کے جمہوری تشخص کو نقصان پہنچے گا۔یہ وہی ششی تھرور ہیں جنہوں نے بانی پاکستان کے دو قومی نظریہ کی حمایت کی تھی۔
پاکستان نےبھارت کی حکومت کی طرف سے ایمنٹسی کے ارکان کو مسلسل ہراساں کرنے کی مذمت کی ہے۔شہریار آفریدی کے مطابق ایمنٹسی نےبھارتی مسلمانوں ،دلت،عیسائی اور کشمیریوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس سے مودی سرکار مشتعل ہے۔انہوں نےاقوام متحدہ پر زور دیا کہ بھارت میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کی فوری مدد کی جائےلیکن سوال یہ ہےکہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟
شفقنا اردو
ur.shafaqna.com
جمعتہ المبارک ،2اکتوبر2020